021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبضہ سے پہلے فروختگی کے بارے میں مذہبِ مالکی پر فتوی(جدید)
60537خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

بندہ نے قمر الحق کو 329 بوری کھاد کی خرید کر دی تھی، قمر الحق نے اس کی رقم چھ لاکھ روپیہ 115 قسطوں میں مجھے واپس کی،بندہ نے اس تمام رقم کو خرچ کر لیا، اب بندہ کے پاس کوئی رقم، پلاٹ اور کاروبار وغیرہ نہیں ہے، بے روزگاری ہے، اب سابقہ سودا کیسے واپس لوٹاؤں؟  سابقہ سودا واپس لوٹانے میں بندہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، وہ اس طرح کہ ڈیڑھ سال پہلےکھاد کا ریٹ 1830 روپے فی بوری تھا، اب ریٹ کم ہو کر 1280 روپے فی بوری ہو گیا ہے۔اب اگروہ 329 بوریاں واپس کرے تو بوریوں کی قیمت:421120 روپے بنتی ہے۔جبکہ میں نے اس کو کھاد602070 روپے کی خرید کر دی تھی اور ایک لاکھ روپیہ میں نے پرافٹ لیا تھا، اس طرح مجھے 702070روپے واپس کرنا ہوں گے، جبکہ میرے پاس ابھی کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ ایک لاکھ روپیہ کابیٹے  کی شادی کی وجہ سے مقروض ہوں۔اس قرض اور غربت کے عالم میں میرے لیے329 بوریوں کی موجودہ قیمت کاٹنے کے بعد 380950روپے واپس لوٹانا بہت مشکل ہے، جبکہ ایک لاکھ روپیہ مزید قرضہ بھی ہے، جو بہر صورت ادا کرنا ہے اور وہ اس رقم کے علاوہ ہے۔لہذا برائے مہربانی کوئی آسان صورت نکال دیں توآپ کی بہت نوازش ہو گی۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ جس وقت اس نے کھاد خریدی تو اتنی کھاد بائع کے پاس  اسٹاک میں موجود تھی، نیز اس کوالٹی کی کھاد اب بھی  بازار میں ملتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید یہ جاننا ضروری ہے کہ خریدی گئی چیز کے بارے میں  اصل حکم تو یہی ہے کہ اس  پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں،اس طرح کی خریدوفروخت شرعاً فاسد اور ناجائز ہے ،ایسی صورت میں خریدوفروخت کے معاملے کوفسخ (ختم کرنا)  اور اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے، اور حاصل شدہ نفع کو اصل مالک کی طرف واپس لوٹانا  اور اس کے نہ ملنے کی صورت میں بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا لازم ہے۔

 لیکن اگرکسی وجہ سے خریدوفروخت کو ختم کرنا ممکن نہ ہو، مثلا:خریدی گئی چیزخریدار کے پاس ضائع ہو جائے یا  وہ  آگے کسی کو فروخت کر دے تو ایسی صورت میں ضمان واجب ہوتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اس چیز کی مثل بازار میں موجود ہوتوخریدار اسی طرح کی چیز خرید کر بائع کو واپس کرے گا  اوراگر اس کی مثل موجود نہ ہو تو  اس کی قیمت فروخت كننده كو ادا كرنا لازم ہو گا اور فروخت کنندہ وصول کیے گئے ثمن (بائع اور مشتری کے درمیان چیز کی طے شدہ قیمت) واپس لوٹائے گا۔ نیز قیمت ادا کرنے کی صورت میں قبضہ کے دن کی قیمت معتبر ہوگی، یعنی جس دن خریدار نے اس چیز پر قبضہ کیا تھا اس دن بازار میں  چیزکی جو قیمت تھی وہ ادا کرنا  ضروری ہوگا۔ اگر قیمت اور ثمن برابر ہوں تو فریقین میں سے کسی کے ذمہ کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔اور اگر قیمت اور ثمن میں فرق ہوتو اس فرق کا حساب کیا جائے گا۔

مذکورہ تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ جب قمر الحق نے کھاد آگے فروخت کردی تو فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک  اس کے ذمہ اتنی کھاد کا ضمان واجب ہوگیا، جس کا حکم  یہ  ہےکہ  چونکہ اس کوالٹی کی کھاد بازار میں موجود ہے (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)، اس ليے اب کھاد کی قیمت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ خریدار کے ذمہ اس جیسی کھاد واپس کرنا اور فروخت کنندہ کے ذمہ ثمن واپس کرنا لازم ہے، لہذا خریدار اس کوالٹی کی کھاد کی اتنی بوریاں واپس کرکے ادا کیا گیا ثمن واپس لے سکتا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ فریقین باہمی رضامندی سے صلح کر لیں ،قمر الحق کو چاہیے کہ  آپ کو ثمن معاف کردے اور آپ اس کو  کھاد کی بوریاں معاف کردیں تا کہ معاملہ  صاف ہو جائے ، کیونکہ آپ نے  نقد کھاد خرید کر قمر الحق کو مناسب نفع رکھ کر ادھار پر بیچی تھی، جس کو قمر الحق نے آگے فروخت کرکے نفع کمایا اور پھر رقم بھی آپ کو 115 قسطوں میں ادا کی، اس لیے اب اس کو بھی چاہیے کہ آپ کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔

لیکن اگر قمر الحق صلح پر رضامند نہیں ہوتا اورآپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، جبکہ  آپ کے پاس ثمن واپس کرنے کے لیے واقعتاً رقم نہیں ہے تو  اس مجبوری  کی صورت میں آپ کے لیے حضراتِ مالکیہ رحمہم اللہ کے مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، کیونکہ عصرِ حاضر کے بعض علمائے کرام نے  اس مسئلہ میں مالکیہ کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے،چنانچہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی  صاحب مدظلہم قبضہ سے پہلے خریدوفروخت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 "قبضہ سے پہلے خریدوفروخت کے مسئلہ میں موجودہ حالات میں فقہ مالکی یا فقہ حنبلی کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔"

 جدید فقہی مسائل:(ج:4،ص:133)

اسی طرح ہندوستان کی مشہور اسلامک فقہ اکیڈمی کے مقالہ نگار عالم مولانا محمد حنیف صاحب مدظلہم تحریرفرماتے ہیں:

"اگر حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اختیار کیا جائے تو ماکولات ومشروبات کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں میں ان کے نزدیک بیع قبل القبض کے جائز ہونے کی وجہ سے سہولت اور آسانی ہو جائے گی اور موجوده  دور ميں ضرورت کے وقت حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اختیار کرکے لوگوں کو حرج اور تنگی سے بچانا ضروری ہے۔"لا حرج في الدين، يسروا ولاتعسروا" كا ارشاد ہے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اصول ہے:"إذا ضاق الأمر اتسع، المشقة تجلب التيسير" اس لیے امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں۔"

جدید فقہی مباحث:(ج:15،ص:89)

ان کے علاوہ حضرت مولانا محمدزید ندوی  مدظلہم نے بھی جدید فقہی مباحث:(ج:15،ص:146) میں مذكور  اپنے ايك  مقالہ میں  حضرت مولانا  اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کا"ملفوظاتِ حکیم الامت" سے درج ذیل قول نقل کرنے کے بعد مالکیہ کے مسلک پر عمل کرنے کی تجویز پیش کی ہے:

"میں نے چاہا تھا کہ تمام لوگ اپنے معاملات کے مسائل لکھ کر میرے پاس سوالات کی شکل میں جمع کروا دیں،خواه ان كا تعلق كاروبار سے ہو یا زراعت سے یا ملازمت سے۔ میں ان کا حل تلاش کرکے بتا دوں گا، اگر حنفیہ کے مسلک میں گنجائش نہ نکلتی ہو تو میں شافعیہ  کے مذہب پر فتوی دوں گا، حنابلہ کے مذہب پر فتوی دوں گا،  مالکیہ کے مذہب پر فتوی دوں گا اور اگر کہیں سے حل نہ نکلتا ہو تو اس کی کوئی آسان صورت بتا دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب ضعف کی وجہ سے ہمت نہیں رہی۔"

نیز  مذکورہ صورت میں علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت سے بھی کوئی عمل لا علمی میں اپنے مذہب کے خلاف ہو چکنے کے بعدمذہبِ غیر  پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

حاشية ابن عابدين (1/ 75)ايچ ايم سعيد:

وقال أيضا: إن له التقليد بعد العمل كما إذا صلى ظانا صحتها على مذهبه ثم تبين بطلانها في مذهبه وصحتها على مذهب غيره فله تقليده، ويجتزئ بتلك الصلاةعلى ما قال البزازية: إنه روي عن أبي يوسف أنه صلى الجمعة مغتسلا من الحمام ثم أخبر بفأرة ميتة في بئر الحمام، فقال نأخذ بقول إخواننا من أهل المدينة إذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثا اه۔

اورصورتِ مسئولہ میں  مالکیہ کے مذہب پر عمل کرنے کے لیے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک یہ کہ مالكيہ كے مذہب ميں بغیر تعیین کے چیز خریدنے کا حکم (کیونکہ مذکورہ صورت میں کھاد کی تعیین بھی نہیں کی گئی تھی، بلکہ صرف پرچی لے کرآگے فروخت کر دی گئی تھی)۔دوسرا یہ کہ اس پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنے کا حکم۔

 

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو اس میں مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر کسی عین چیز( كرنسی كے علاوه بقیہ چيزيں جیسے سامان وغیرہ) کی خریدوفروخت کی جائے  اور  اس کی اکائیوں میں زیادہ فرق نہ ہو(ٲیكان المبيع مما لاتتفاوت ٲحاده تفاوتا مفضيا إلى النزاع) جیسے گندم وغیرہ تو اس کی تعیین ضروری نہیں، بلکہ قبضہ کرتے وقت خود بخود تعیین ہو جائے گی، چنانچہ علامہ دسوقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حاشية الدسوقي (3/ 2):

قوله ( معين غير العين فيه ) إضافة غير فيه للعموم أي معين فيه كل ما خالف العين خرج السلم فإن غير العين فيه ليس معينا بل في الذمة والمراد بالمعين ما ليس في الذمة فيشمل الغائب فبيع الغائب ليس سلما لأن غير العين فيه معين والحاصل أن العين لا يجب أن تكون معينة في البيع والسلم وأما غير العين فيجب أن يكون معينا في البيع وغير معين في السلم۔

باقی قبضہ سے پہلے آگے فروخت کرنے میں فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر ظعام یعنی بطور غذا استعمال  کی جانے والی چیز کی خریدوفروخت کی جائے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے بیچنا منع ہے اور غذائی چیزوں کے علاوہ بقیہ اشیاءمثلاً:کھاد، سیمنٹ اور دیگر خارجی طور پر استعمال کی جانے والی چیزوں کی خریدوفروخت میں ان پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز ہے، مالکیہ کا  مشہور مذہب یہی ہے، چنانچہ " المدونة الکبری" میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول مذکور ہے کہ کھانے اور پینے کی چیزوں کے علاوہ دیگراشیاء کو قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

المدونة الکبری(3/ 134) دار الكتب العلمية بيروت ـ لبنان:

وكل شيء ما خلا الطعام والشراب فهو جائز أن تبيعه قبل أن تستوفيه إن كنت اشتريته وزنا أو كيلا أو جزافا فهو سواء، وكان الحديث إنما جاء في الطعام وحده.

اسی طرح  مالکیہ کےمشہور عالم  علامہ ابن عبد البر   رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الكافي في فقه أهل المدينة (2/ 661)  الناشر: مكتبة الرياض الحديثة ، المملكة السعودية:

كل ما اشتريت من العروض كلها الحيوان والعقار والثياب وغير ذلك ما خلا البيع من الطعام على الكيل فلا بأس عند مالك أن يبيع ذلك قبل أن يقبضه ۔

یعنی کھانے کی چیزوں کے علاوہ جانور، زمین، کپڑے اور دیگر سامان کی خریدوفروخت میں امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی عبارات میں فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب نقل کیا گیا ہے،نیز فقہائے حنابلہ رحمہم اللہ  کا بھی   راجح مذہب یہی ہے۔(دیکھیے عبارات:3تا 12)

   لہذا مالکیہ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے صورتِ مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ کھاد چونکہ بطور غذا استعمال کی جانے والی چیزوں میں سے نہیں ہے اور آپ کے کھادخریدنے اور بیچنے کے وقت اتنی کھاد فروخت کنندہ کے پاس موجود تھی، صرف کھاد کی تعیین اور اس پرقبضہ نہیں کیا گیا تھا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے،  لہذا  ایسی صورت میں آپ نےاس کھاد پر قبضہ کرنے سے پہلے قمر الحق کو  فروخت کر دیا تو ماضی میں ہو جانے والے عمل کو درست قرار دیاجائے گا ، پھر قمر الحق کا آگے کاشتکاروں کوفروخت کرنابھی مالکیہ کے مذہب کے مطابق درست قرار پائے گا۔ البتہ آپ کا قمر الحق سے رقم وقت پر نہ ادا کرنے کی وجہ سے نفع کا مطالبہ کرنا  کسی صورت میں بھی جائز نہیں، کیونکہ یہ سود ہے۔

واضح رہے کہ اس فتوے پر عمل كرنا اسی وقت جائز ہے جب واقعتاً آپ کی معاشی حالت اتنی کمزور ہو کہ آپ کے پاس خریدار کو واپس کرنے کے لیے سوال میں ذکرکردہ رقم موجود نہ ہو۔نیزآئندہ کے لیے اس طرح کی خریدوفروخت سے مکمل اجتناب کیا جائے، اس فتوى کو بہانہ بنا کر آئندہ ایسا معاملہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔باقی یہ فتوی چونکہ مالکیہ کے مسلک پر دیا گیا ہے، اس لیے مذکورہ مسئلہ کے بارے میں دیگر اہل ِفتوی علمائے کرام سے بھی رجوع کیا جائے تو مناسب ہو گا۔

نوٹ: سوال میں ذکرکردہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اس خاص مستفتی كے ليے مذہبِ غیر پر فتوی دیا گیا ہے، لہذا اس کو حکمِ عام سمجھ کر دوسرے مستفتی حضرات پر اس کا اطلاق نہ کیا جائے، الا یہ کہ وہ بھی اس طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوں۔

حوالہ جات
1۔الفقه الإسلامي وأدلته (5/ 175) دار الفكر، دمشق:
إذا كان المبيع قطناً، فغزله، أو غزلاً فنسجه، أو حنطة فطحنها، أو سمسماً أوعنباً فعصره، أو ساحة فبنى عليها، أو شاة فذبحها وشواها أو طبخها ونحوها؛ إذ القبض في البيع الفاسد كقبض الغصب؛ لأن كل واحد منهما مضمون الرد حال قيامه، ومضمون القيمة أو المثل حال هلاكه، فكل ما يبطل حق المالك في الغصب يبطله في البيع. وحينئذ يلزم المشتري بدفع قيمة الشيء المبيع يوم القبض، كما في الغصب.
2۔بدائع الصنائع (5/ 303) فصل فی حکم البیع :
ولو كان المبيع ثوبا فقطعه المشترى وخاطه أحدث قميصا في المبيع بطنه صنعا وحشاه لو أحدثه بطل حق الفسخ وتقرر عليه قيمته يوم القبض۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (9/ 16)
وتعيين المبيع أمر زائد عن المعرفة به ، لأنه يكون بتمييزه عن سواه بعد معرفة ذاته ومقداره ، وهذا التمييز إما أن يحصل في العقد نفسه بالإشارة إليه ، وهو حاضر في المجلس ، فيتعين
 
حينئذ ، وليس للبائع أن يعطي المشتري سواه من جنسه إلا برضاه . والإشارة أبلغ طرق التعريف. وإما أن لا يعين المبيع في العقد ، بأن كان غائبا موصوفا ، أو قدرا من صبرة حاضرة في المجلس ، وحينئذ لا يتعين إلا بالتسليم . وهذا عند الحنفية والمالكية والحنابلة۔
4۔حاشية ابن عابدين (5/ 73)ایچ ایم سعید:
 وقيد بقوله وقبضه لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه
5۔حاشية الدسوقي (3/ 151) دار الفكر، بيروت:
وجاز البيع قبل القبض لكل شيء ملكه بشراء أو هبة إلا مطلق الخ  قوله ( إلا مطلق طعام المعاوضة ) أي إلا الطعام الذي حصل بمعاوضة مطلقا أي سواء كان ربويا أو غير ربوي  قوله ( فلا يجوز بيعه قبل قبضه ) أي لما ورد في الموطأ والبخاري ومسلم عن أبي هريرة من النهي عن ذلك وهو أن رسول الله قال من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يكتاله۔
6۔الذخيرة (5/ 135) شهاب الدين أحمد بن إدريس القرافي، دار الغرب، بيروت:
لا يقف شيء من التصرفات على القبض إلا البيع فيمتنع في بيع الطعام قبل قبضه لقوله  عليه السلام في الصحاح : ( من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نهيہ عن بيع الطعام حتى يستوفى  ومفهومه :  أن غير الطعام يجوز بيعه وما لا توفية فيه كذلك فيجوز الجزاف من الطعام  بقوله تعالى! (وأحل الله البيع)
7۔مناهج التحصيل ونتائج لطائف التأويل في شرح المدونة وحل مشكلاتها (6/ 217)
لأبي الحسن علي بن سعيد الرجراجي (المتوفى: بعد 633ھ):
فإن كان غير الطعام من سائر العروض: فلا خلاف في المذهب في جواز بيعه قبل قبضه.
  8۔الشرح الكبير للدردير (3/ 220) لأبي البركات أحمد بن محمد العدوي ، الشهير بالدردير (المتوفى : 1201هـ):
(ولا) يجوز (دقيق) أي أخذه (عن قمح) مسلم فيه (و) لا (عكسه) بناء على أن الطحن ناقل وإن كان ضعيفا فصارا كجنسين ففي أخذ أحدهما عن الآخر بيع الطعام قبل قبضه. ولما أنهى الكلام على قضاء السلم بجنسه شرع في قضائه بغيره فقال: (و) جاز قضاؤه ولو قبل الأجل (بغير جنسه) أي المسلم فيه بشروط أربعة ذكر المصنف منها ثلاثة أولها قوله: (إن جاز بيعه) أي المسلم فيه (قبل قبضه) كسلم ثوب في حيوان فأخذ عنه دراهم إذ يجوز بيع الحيوان قبل قبضه۔
9۔شرح التلقين (2/ 167): أبو عبد الله محمد بن علي بن عمر التَّمِيمي المازري المالكي (المتوفى: 536هـ) دار الغرب الإِسلامي:
فإن المالكية تمنع بيع الطعام قبل قبضه (إذا كان دنانير أو دراهم أو ما يجوز بيعه قبل قبضه. وأما العين فإن منهم منع منه قبل القبض. والمشهور عندهم جوازه لكون العين له حرمة۔
10۔الفواكه الدواني (3/ 1098): أحمد بن غنيم بن سالم النفراوي (المتوفى : 1126هـ) مكتبة الثقافة الدينية:
أن النهي إنما ورد عن بيع الطعام قبل قبضه، والقبض لا يلزم منه الكيل ولا الوزن ولا العدد.
11۔الموسوعة الفقهية الكويتية (9/ 126):
ومذهب المالكية أن المحرم المفسد للبيع ، هو بيع الطعام دون غيره من جميع الأشياء قبل قبضه ، سواء أكان الطعام ربويا كالقمح ، أم غير ربوي كالتفاح عندهم . أما غير الطعام فيجوز بيعه قبل قبضه۔
12۔الفقه الإسلامي وأدلته (7/ 73):
أما المالكية: فإنهم قصروا المنع في بيع الشيء قبل قبضه على بيع الطعام خاصة، إذا بيع بالكيل أو الوزن أو العد، أما غير الطعام أو الطعام المبيع جزافاً: فيجوز بيعه قبل قبضه، لغلبة تغير الطعام بخلاف ما سواه، ولمفهوم حديث ابن عمر الذي رواه أصحاب الكتب الستة ما عدا ابن ماجه أن رسول لله صلّى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاماً، فلا يبعه حتى يقبضه» . والعلة في منع بيع الطعام قبل قبضه عندهم: هي أنه قد يتخذ ذريعة للتوصل إلى ربا النسيئة، فهو شبيه ببيع الطعام بالطعام نسيئة، فيحرم سد اً للذرائع۔
13۔الكافي في فقه ابن حنبل (2/ 14):
ومن اشترى مكيلا أو موزونا لم يجز له بيعه حتى يقبضه في ظاهر كلام أحمد رضي الله عنه و الخرقي وما عداهما يجوز بيعه قبل القبض لقول النبي صلى الله عليه و سلم : [ من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ]
14۔ المغني (4/ 239):
 بيع المبيع والدين قبل القبض :
 مسألة : قال : ومن اشترى ما يحتاج إلى قبضه لم يجز بيعه حتى يقبضه ۔ قد ذكرنا الذي لا يحتاج إلى قبض والخلاف فيه وكل ما يحتاج إلى قبض إذا اشتراه لم يجز بيعه حتى يقبضه لقول النبي صلى الله عليه و سلم : [ من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ] متفق عليه ولأنه من ضمان بائعه فلم يجز بيعه كالسلم ولم أعلم من  أهل العلم خلافا إلا ما حكي عن البتي أنه قال : لا بأس ببيع كل شيء قبل قبضه وقال ابن عبد البر : وهذا قول مرودود بالسنة والحجة المجمعة على الطعام وأظنه لم يبلغه هذا الحديث ومثل هذا لا يلتفت إليه وأما غير ذلك فيجوز بيعه قبل قبضه في أظهر الروايتين۔
15۔أصول الإفتاء وأدابه:(ص: 204) للشيخ محمد تقي العثماني حفظه الله :
فينبغي للمفتي أن يسهل على الناس في الأخذ بما هو أرفق فيما تعم به البلوى، سواء كان في غير مذهبه من المذاهب الأربعة، وقد أوصى  بذلك شيخ مشايخنا العلامة رشيد أحمد الكنكوهي رحمه الله تعالى صاحبه الشيخ العلامة أشرف علي  التهانوي رحمه الله تعالى ، وقد عمل بذلك الشيخ التھانوي قدس الله سره في كثير من المسائل في"إمداد الفتاوى۔

        محمد نعمان خالد

                         دارالافتاء جامعة الرشید، کراچی

06/12/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب