021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تجارت میں نفع کی حد کی تعیین
60737خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ہم نے جنوری 2017ء سے اپنے علاقہ ماہڑہ میں کپڑے کاکاروبار شروع کیا۔ میرے والد صاحب عالم ہے۔بڑابھائی بھی عالم ہے ،اس سے چھوٹا اور مجھ سے بڑا بھائی مفتی ہے۔ والد صاحب اسکول ٹیچر تھے ،انھوں نے ریٹائرمنٹ لی تو کپڑے کی دوکان لگائی۔ جس وقت انھوں نے یہ کام شروع کیا تو سنت سمجھ کر اور عوام کی خدمت کو مد نظر رکھ کر شروع کیا۔ والد صاحب کا ارادہ تھا کہ ایک دام والی بات ہو،لیکن ہمارے علاقے میں یہ ترتیب نہیں تھی۔ اب مجبورا ان کو ایک سوٹ کی قیمت 600 روپے بڑھا کر بتانا پڑی اور ساتھ ساتھ جھوٹ بھی بولنا پڑا۔ انھوں نے اس سوٹ میں سے 300 رعایت کرکے 300 منافع لے لیاجو کہ ناجائز ہےکیونکہ ہمار ا حق 100 روپے بنتا ہے۔اب حال یہ ہے کہ ان دونوں کو اس طرح غلط بیانی کرنے اور جھوٹ بولنے میں مزا آنے لگ گیا،جس کو انھوں نے اپنی عادت بنالیا ہے۔ اب اگر میں کسی گاہک سے 100 روپے نفع لے کر بیچ دوں تووہ مجھ سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ سارا دن دوکان پر جھوٹ اور غلط بیانی کرتے ہیں اور ناجائز منافع لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ عاجز آپ حضرات کی رہنمائی چاہتا ہے کہ میں جاہل ہو کران علماء کو کیسے سمجھاؤں ؟ ان حالات میں میرا کیا حق بنتا ہے؟ مہربانی فرماکر کچھ رہنما اصول بیان فرمایئے کہ اللہ رب ذوالجلا ل ہمیں اس کام کو سنت کے مطابق کرنے والابنادے۔ آمین

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مقدسہ نے تجارت میں منافع حاصل کرنے کی کوئی خاص حد متعین نہیں کہ کوئی مال خرید کر آپ صرف اتنے فیصد نفع لے کر فروخت کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ،اس لیےکہ تجارت نفع کے لیے ہی کی جاتی ہے، بلکہ اس کو عاقدین پر چھوڑدیا کہ وہ باہمی رضامندی سے جس طرح چاہیں معاملہ طے کرلیں، البتہ اس حد تک منافع لینا جس سے لوگوں کوواضح نقصان پہنچتا ہو یا لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا خلافِ مروت ہے۔باقی مال کی بےجا تعریف کرنا یا عیب چھپانا یا نقلی اور جعلی مال کو اصلی ظاہر کرکے دھوکہ دے کر زیادہ رقم وصول کر نا یہ گناہِ عظیم ہے اور اضافی رقم کے بقدر اس میں خرابی آئے گی، اب اس خرابی کے ازالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر خریدار معلوم ہے تو اس کو اضافی رقم واپس کردے ، لیکن اگر خریدار معلوم نہیں تو پھر اضافی رقم بلا نیت ثواب صدقہ کردے ۔ لہذا اگر آپ کے بھائی غلط بیانی میں ملوث ہیں تو اپنے والد صاحب یا علاقے کے کسی بزرگ عالم سے بات کرکے ان اصلاح کروائیں۔
حوالہ جات
"عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہﷺ یقول: الحلف مُنَفِّقَةلِلسِّلعَةِ مُمحِقَة لِلبَرَکَة۔" (البخاری :١/٢٨٠، باب یمحق اللہ الربا و یربی الصدقات) "عن أبی ذر رضی اللہ عنہ عن النبی صلى الله عليه وسلم قال: ''ثلاثة لا یکلمھم اللہ یوم القیامة ولاینظر الیھم و لا یزکیھم، و لھم عذاب الیم'' قال أبو ذر: خابوا و خسروا من ھم؟ یارسول اللہ! قال: المسبل، و المنان و المنفق سلعتہ بالحلف الکاذب'' رواہ مسلم (مشکوة المصابیح، باب المساھلة فی المعاملة :١/٢٤٣) "عن عبد الرحمن بن أبی أوفی رضی اللہ عنہ: أن رجلا أقام سلعة و ھو فی السوق فحلف باللہ لقد أعطی بہا ما لم یعط لیوقع فیہا رجلا من المسلمین فنزلت (ان الذین یشترون بعہد اللہ و أیمانہم ثمنا قلیلا) ۔" (آل عمران : ٧٧) 2200" - حدثنا محمد بن المثنى قال: حدثنا حجاج قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، وحميد، وثابت، عن أنس بن مالك، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله قد غلا السعر فسعر لنا، فقال: «إن الله هو المسعر، القابض الباسط الرازق، إني لأرجو أن ألقى ربي وليس أحد يطلبني بمظلمة في دم ولا مال»" (سنن ابن ماجه: 2/ 741) "ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب