کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک مدرسہ میں ایک یا دو رہائشی طالب علم ہیں تو کیا اس کے مہتمم کے لیے چندہ جمع کرنا ،زکوۃ وصدقات وغیرہ جمع کرناجائزہے یانہیں؟ مہتمم چندہ اس لیے جمع کرتاہے تاکہ اس میں سےاپنی تنخواہ اورایک استاذ کی تنخواہ پوری کرسکے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرمہتمم مذکورہ چندہ کرکے باقاعدہ ان دوطلبہ سے تملیک کراتاہےاورپھراس کوتنخواہوں میں استعمال کرتاہے توفی نفسہ اگرچہ یہ جائزہےکیونکہ تملیک کے بعدزکوۃ زکوۃ نہیں رہتی ،تاہم چونکہ بہرحال یہ ایک حیلہ ہے جوسخت ضرورت کے وقت استعمال کیاجاتاہے ،جب مذکورہ مدرسہ میں طلبہ بڑی مقدارمیں نہیں جن کے قیام وطعام وغیرہ کے اخرجات کےلیے اموالِ زکوۃ درکارہوں اس لیےمہتمم کےلیے زکوٰۃ کے علاوہ باقی عطیات پراکتفاکرناچاہیے۔
حوالہ جات
وفی الشامیۃ (۲۶۹/۲):
’’قولہ اذا وکلہ الفقراء‘‘ لانہ کلما قبض شیئا ملکوہ وصار خالطا مالھم بعضہ ببعض ووقع زکوٰۃ عن الدافع، لکن بشرط ان
لا یبلغ المال الذی بیدہ الوکیل نصابا۔ فلو بلغہ وعلم بہ الدافع لم یجزہ اذا کان الاٰخذ وکیلا عن الفقیر… قلت ھذا اذا کان
الفقیر واحداً، فلو کانوا متعددین لابد ان یبلغ لکل واحد نصابا لان مافی یدالوکیل مشترک بینھم.
فی المحیط البرھانی (۲۱۲/۳):
والحیلۃ لمن اراد ذلک ان یتصدق بمقدار زکوتہ علی فقیر ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف لھذہ الوجوہ، فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ وللفقیر ثواب ھذہ القربۃ.