021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تولہ، ڈیڑھ تولہ سونے کے ساتھ اگر تھوڑی بہت نقدی ہو تو زکوٰۃ وقربانی کا حکم
60969 قربانی کا بیانوجوب قربانی کانصاب

سوال

بعض غریب لوگوں نے شادی پر ملنے والے زیور کو (جوکہ تولہ ڈیڑھ تولہ ہی ہوتا ہے) آنے والے کسی خرچے کے لیے یا بچیوں کی شادی کے لیے سنبھال کر رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے تو گھر کا کچن چلانا ہی بڑا مسئلہ ہے، زکوٰۃ یا قربانی تو دور کی بات ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے شریعت نے کیا گنجائش نکالی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر تولہ، ڈیڑھ تولہ سونے کے ساتھ نقدی یا کوئی اور ایسا مال موجود ہو جس پر زکوٰۃ یا قربانی واجب ہوتی ہو، اور مجموعے کی مالیت ½ 52 تولہ چاندی کے برابر ہو تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق دیگر شرائط پائے جانے کی صورت میں زکوٰۃ اور قربانی واجب ہوگی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تو عام طور سے زیادہ مشکلات نہیں ہوتیں، کیونکہ زکوٰۃ کل مال کا صرف اڑھائی فیصد واجب ہوتی ہے، اس لیے ایسا شخص زکوٰۃ ادا کرے گا۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ زکوٰۃ کا سال جس دن پورا ہورہا ہو اگر اس دن سے پہلے پہلے اس شخص کے پاس موجود نقدی وغیرہ قابلِ زکوٰۃ مال، خرچ ہوجائے، اور اس دن اس کے پاس صرف سونا باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں صرف سونے کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اگرچہ اس سونے کی قیمت ½ 52 تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا اور کچھ نقدی ہو اور وہ شخص واقعۃً اتنا مجبور ہو کہ اس کے پاس اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی باعزت راستہ (خواہ کسی کا تعاون ہی ہو) نہ ہو، مثلاً کوئی بیوہ خاتون ہو تو اس کے لیے اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وہ سونا اپنے نابالغ بچوں میں تقسیم کرکے ان کو ہبہ کردے، اس صورت میں وہ سونا اس کی ملکیت سے نکل کر ان بچوں کی ملکیت میں آجائے گا، البتہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے موہوب لہٗ (جس کو کوئی چیز ہبہ کی جائے) کا قبضہ شرط ہے، نابالغ کی طرف سے اس کے باپ، اور باپ نہ ہونے کی صورت میں والدہ کا قبضہ بھی کافی ہے۔ اگر بچے اتنے سمجھ دار ہوں کہ اپنے نفع نقصان کو سمجھتے ہوں تو ان کا قبضہ بھی ہبہ مکمل ہونے کے لیے کافی ہے۔ اور نابالغ بچوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی اگرچہ وہ صاحبِ نصاب ہوں۔ (مأخوذ من التبویب:50/48845) زکوٰۃ کی طرح قربانی میں بھی اگر عید کے تین دن آنے یا گزرجانے سے پہلے پہلے دوسری جنس کا مال خرچ ہوجائے یا کسی کو ہبہ کردے اور اس شخص کی ملکیت میں نہ رہے تو ایسے میں صرف سونے کی وجہ سے اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ جن کم آمدن رکھنے والے افراد کو دقت کا سامنا ہو وہ اس تدبیر پر عمل کرسکتے ہیں۔ جوشخص چاندی کے اعتبار سے صاحب نصاب ہو اور اس کے پاس عیدالاضحیٰ کے مہینے کے ضروری گھریلو اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ اتنی رقم ہو جس سے وہ قربانی(اگرچہ بڑے جانور میں حصہ لینے کی صورت میں ہو) کر سکے ،تو اس پر قربانی لازم ہے، اور جس کی آمدن اتنی ہو کہ وہ اگر قربانی کرے تو اس کے پاس ضروری اخراجات کی رقم بھی نہ بچے تو اس کے لیے گنجائش ہے کہ قربانی نہ کرے۔ اس گنجائش کا مدار مشہور فقیہ علامہ ابن الملک رحمہ اللہ تعالی کی رائے پر ہے، جس کا علامہ شامی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے اور بعض دوسرے مشایخ سے اس کی صحت وتائید نقل فرمائی ہے۔ (مأخوذ من التبویب: 52/50500)
حوالہ جات
بدائع الصنائع (2/ 15): ولو احتال بشيء من ذلك فراراً من وجوب الزكاة عليه هل يكره له ذلك ؟ قال محمد يكره ، وقال أبو يوسف لا يكره ، وهو على الاختلاف في الحيلة لمنع وجوب الشفعة، ولا خلاف في الحيلة لإسقاط الزكاة بعد وجوبها مكروهة كالحيلة لاسقاط الشفعة بعد وجوبها. إعلاء السنن (18/8796)، کتاب الحیل: الفرار من الزکاة یحمل وجوهاً…… الثالث: أن یعلم أنه إذا أدی الزکاة یقع خلل فی بعض أمورہ من المعایش، فیحتال لدفع الزکاة عن نفسہ تحرزاً من ذلك الخلل، وھو لیس بقبیح، فلایکون الاحتیال لہ قبیحاً. حاشية ابن عابدين (2/ 262): قوله ( وفسره ابن ملك ) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية ….. فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم اه وظاهر قوله فإذا كان له دراهم الخ أن المراد من قوله وفارغ عن حاجته الأصلية ما كان نصابا من النقدين أو أحدهما فارغا عن الصرف إلى تلك الحوائج…… لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقا لظاهر عبارات المتون كما علمت وقال: ح "إنه الحق" فالأولى التوفيق….. الخ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب