021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کا حکم
61110قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

اگر کوئی شخص کہے کہ "مجھ پر یہ کھانا حرام ہے"، پھر بعد میں اسے کھالے تو یہ کھانا اس کے لیے کیسا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کردینا شرعاً "یمین" یعنی قسم کے حکم میں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص نے بعد میں وہ کھانا کبھی بھی کھالیا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، یا ہر ایک کو سوا دو کلو گندم یااس کی قیمت(یعنی ایک فطرانے کے بقدر) دیدے، یا ان کو متوسط درجے کا ایک ایک جوڑا دے، اور اگر ان دونوں صورتوں کی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اس طرح قسم "یمینِ فور" کے طور پر نہ ہو، ورنہ صرف اسی وقت کھانے سے کفارہ آئے گا، بعد میں کھانے سے کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ "یمینِ فور" اس قَسَم کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص موقع پر کسی خاص وجہ سے کھائی جائے، مثلاً کوئی شخص کسی کو کھانے کی دعوت دے اور وہ قسم اٹھالے کہ یہ کھانا میرے اوپر حرام ہے یا میں اس کو نہیں کھاونگا، ایسی صورت میں قَسَم صرف اس واقعے اور سبب تک محدود ہوتی ہے، اس کے بعد وہ کام کرنے سے قسم کھانے والا حانث نہیں ہوتا اور کفارہ لازم نہیں آتا۔
حوالہ جات
القرآن الکریم: {لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [المائدة: 89] الدر المختار (3/ 729): ( ومن حرم ) أي على نفسه لأنه لو قال إن أكلت هذا الطعام فهو علي حرام لا كفارة، خلاصة ، واستشكله المصنف ( شيئا ) ولو حراما أو ملك غيره كقوله الخمر أو مال فلان علي حرام فيمين ما لم يرد الإخبار ، خانية ( ثم فعله ) بأكل أو نفقة ولو تصدق أو وهب لم يحنث بحكم العرف ، زيلعي ( كفر ) ليمينه لما تقرر أن تحريم الحلال يمين. حاشية ابن عابدين (3/ 730): قوله ( ليمينه ) أي لأجل يمينه التي حنث بها فهو علة لقوله "كفر"، وقوله "لما تقرر" الخ، علة لكون ذلك يمينا فهو علة للعلة ، …. ودليل كون التحريم يميناً مبسوط في الفتح وغيره. "کتاب الأصل" للإمام محمد بن الحسن الشيباني – ط- قطر (2/ 286): وإذا حنث الرجل في يمين فأطعم عشرة مساكين كل مسكين نصف صاع من حنطة أو دقيق أو سويق أجزاه ذلك. وإن أطعم تمراً أو شعيراً أطعم كل مسكين مختوماً بالحَجَّاجِي. ولو دعا عشرة مساكين فغدّاهم وعشّاهم أجزاه ذلك. ولو غدّاهم خبزاً وعشّاهم مثله وليس معه أُدُمٌ أجزاه ذلك. ولو غدّاهم سويقاً وتمراً وعشّاهم بمثل ذلك أجزاه ذلك. ولو أعطاهم قيمة الطعام فأعطى كل مسكين قيمة نصف صاع أجزاه ذلك. ولو غدّاهم وأعطاهم قيمة العشاء أجزاه ذلك. وفی صفحة: 2/294 من "الأصل" للإمام محمد: وإذا حنث الرجل في يمينه وهو معسر لا يجد ما يعتق، ولا ما يكسو، ولا ما يطعم فعليه الصيام ثلاثة أيام متتابعة. فإن صامها متفرقةً لم يجز عنه. بلغنا أنه في قراءة ابن مسعود: [ثلاثة أيام متتابعات].
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب