اگر کوئی شادی شدہ خاتون اپنے بالغ بھائی اور والد کی موجودگی میں شوہر کو خطا ب کرکے یہ کہے کہ میں نے اپنا نکاح آپ سے کردیا ہے ، اور اس کا شوہر جواب میں کہے کہ میں نے قبول کرلیا ، کیا شرعا یہ صورت تجدید نکاح کہلائیگی یانہیں ؟
نیز تجدید کے لئے یہ جملہ ایک دفعہ کہنا کافی ہوگا یا تین دفعہ کہنا پڑے گا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نکاح منعقد ہونے کے لئے مجلس نکاح میں دو عاقل بالغ گواہوں کا موجو دہونا اورگواہوںکا دونوں کے ایجاب اور قبول کے الفاظ کو سننا ضروری ہے ،اس میں بالغ بھائی اور والد کی موجودگی میں بھی نکاح ہوجائے گا ،شرط یہ ہے کہ مجلس نکاح میں ایجاب اور قبول ہو ،اور تجدید نکاح کی وجہ سے نیا مہر بھی لازم ہوگا ،شرعامہر کی کم سے کم مقدار دس دراھم چاندی یا اس کی قیمت ہے ،۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21)
(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر
(قوله: فاهمين إلخ) قال في البحر: جزم في التبيين بأنه لو عقدا بحضرة هنديين لم يفهما كلامهما لم يجز وصححه في الجوهرة، وقال في الظهيرية: والظاهر أنه يشترط فهم أنه نكاح واختاره في الخانية فكان هو المذهب، لكن في الخلاصة: لو يحسنان العربية فعقدا بها والشهود لا يعرفونها اختلف المشايخ فيه والأصح أنه ينعقد. اهـ.
لقد اختلف التصحيح في اشتراط الفهم. اهـ.وحمل في النهر ما في الخلاصة على القول باشتراط الحضور بلا سماع ولا فهم: أي وهو خلاف الأصح كما مر، ووفق الرحمتي بحمل القول بالاشتراط على اشتراط فهم أنه عقد نكاح والقول بعدمه على عدم اشتراط فهم معاني الألفاظ بعدما فهم أن المراد عقد النكاح