021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پہلی بیوی کا خاوند کی دوسری شادی کو”حرام توپی”کہنا
61175ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

خاوند اوربیوی دوسری شادی کے موضوع پر بحث اورمباحثہ کررہے تھے کہ اسی دوران خاوند نے اپنی بیوی سے کہاکہ "دوسری شادی کرناسنت عمل ہے"تو بیوی نے جواباًکہاکہ"نہیں ،پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا حرام توپی ہے"یا صرف اتنا جملہ کہاکہ "دوسری شادی کرناحرام توپی ہے"اس پر خاوند نے کہاکہ آپ کا دوسری شادی کو "حرام توپی "سے تعبیرکرنا درست نہیں ،کیونکہ دوسری شادی کرناسنت عمل ہے اورآپ نے سنت عمل کےلیے وہ لفظ بول دیا ہے جوکہ ہمارے عرف میں سب وشتم کےلیے بولاجاتاہے ،بیوی آگے سےکہنے لگی کہ "نعوذباللہ میرا مطلب سنت کو برا بھلا کہنا نہیں تھا بلکہ غلطی سے یا غصہ سے یہ جملہ منہ سے نکل گیا"اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ جملہ کفریہ کلمات میں داخل ہے یانہیں ؟ کیا اس کی وجہ سے تجدیدِایمان اورنکاح کیاجائے یانہیں ؟اگر خدانخواستہ اس دوران بیوی سے ہمبستری کی ہو اورحمل ٹھہرگیا ہوتو کیا پیداہونے والابچہ ولدالزناشمارہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلی بیوی کا خاوند کی دوسری شادی کو "حرام توپی"(حرام کام کرنا)کہناانتہائی براہے ، کیونکہ چار تک شادیاں کرنامرد کا شرعی حق ہے اوراس کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں، البتہ سب بیویوں کے درمیان شرع اصولوں کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کرناخاوند پرلازم ہے ،اگر اس میں بے انصافی میں مبتلاہونے کا خطرہ ہوتو پھر دوسری شادی کرناجائزنہیں۔مذکورہ کلمہ کہناکفرتونہیں ،لہذاتجدیدِ ایمان اورنکاح ضروری نہین ،لہذا مسئولہ صورت میں ہمبستری درست ہے اوربچہ ثابت النسب ہوگا ،البتہ چونکہ یہ کلمہ انتہائی براہے ،اس لیے اس سے توبہ واستغفارکیاجائے ،آئندہ کے لیے اس سے اجتناب برتاجائے اوراگر احتیاطاً تجدیدِ ایمان اورنکاح بھی کرلیاجائے تو یہ بہتر ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 7) ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك وفی الشامیۃقوله: فإن تيقنه) أي تيقن الجور حرم؛ لأن النكاح إنما شرع لمصلحة تحصين النفس، وتحصيل الثواب، وبالجور يأثم ويرتكب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان هذه المفاسد بحر وترك الشارح قسما سادسا ذكره في البحر عن المجتبى وهو الإباحة إن خاف العجز عن الإيفاء بموجبه. اهـ. أي خوفا غير راجح، وإلا كان مكروها تحريما؛ لأن عدم الجور من مواجبه. الفتاوى الهندية (2/ 276) الخاطئ إذا أجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بأن كان يريد أن يتكلم بما ليس بكفر فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ لم يكن ذلك كفرا عند الكل كذا في فتاوى قاضي خان. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 229) قوله لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن..... إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان لا يكفر فيمابينه وبين ربه تعالى. الفتاوى الهندية (2/ 272) لو قال لحرام: هذا حلال لترويج السلعة، أو بحكم الجهل لا يكون كفرا. وفی رد المحتار (4/ 230) ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط. وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 247) (قوله والتوبة) أي تجديد الإسلام (قوله وتجديد النكاح) أي احتياطا كما في الفصول العمادية. وزاد فيها قسما ثالثا فقال: وما كان خطأ من الألفاظ ولا يوجب الكفر فقائله يقر على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، وقوله احتياطا أي يأمره المفتي بالتجديد ليكون وطؤه حلالا باتفاق، وظاهره أنه لا يحكم القاضي بالفرقة بينهما، وتقدم أن المراد بالاختلاف ولو رواية ضعيفة ولو في غير المذهب.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب