021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بامرِ مجبوری وقف میں استبدال کاحکم
61155وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

ایک زمین ہے جس کو ایک مدرسے والوں نے مدرسہ کی تعمیر کے لیے مدرسے کے چندے کے پیسوں سے خریدی تھی اور مدرسہ کے لئے اس پر تعمیر بنائی ،کچھ کمرے اور ھال بنائے، باقی زمین زیرِ تعمیر تھی، ایک سال تک اسی میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا پھر حکومت اور طالبان کے درمیان جو چپقلش پیدا ہوئی اسی اثنا میں حکومت کی مخالف تنظیم نے زبردستی سے اس مدرسہ پر قبضہ کیا ،پھر حکومت نے انکے خلاف آپریشن کر کے ان کا قبضہ بھی ختم کیا اور ساتھ ہی مدرسہ کوبھی شہیدکیا تمام کمرے گرائے جس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا ،اب حالات نا ساز گار ہونےاورپابندیوں کی وجہ سے اس پر دوبارہ مدرسہ کی تعمیر بھی نہیں کی جا سکتی تو بناء بریں مدرسہ والے اس زمین کو فروخت کرنا چاہتے ہیں، تا کہ اس کی قیمت کے ذریعے دوسری جگہ زمین خرید کر وہاں مدرسہ بنائیں اور اسکے لیےاراکینِ مدرسہ نے مناسب جگہ کا انتخاب بھی کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پرانی زمین کو فروخت کرنا اور اس کی قیمت دوسری جگہ (جسکا انتخاب کیا گیا ہے) پر خرچ کرنا درست ہے یا نہیں ؟مدرسہ کی کمیٹی اور متولی حضرات بھی وہی ہیں اور نئی منتخب شدہ جگہ بھی اسی گاؤ ں میں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں اگر اس جگہ مدرسہ بنانے پر حکومت کی طرف سے پابندی ہو اوراس پابندی کی وجہ سے اس جگہ پر دوبارہ مدرسہ نہ بنایاجاسکتاہوں جس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جگہ کو وقف کرنے سے جوغرض تھی وہ حاصل نہیں ہوگی، اس لیے ایسی صورت میں بحکمِ قاضی یعنی باقاعدہ قانونی طریقے سے اس زمین کو بیچ کراس رقم کومتبادل زمین کی خریداری اورتعمیر میں خرچ کرناجائز ہے تاکہ وقف کے مقاصد پر حتی الامکان عمل کیاجاسکے ۔ اگرکہیں پر قاضی اورعدالت دستیا ب نہ ہوں تو ایسے جگہوں میں ایسی جماعت المسلمین کا فیصلہ کافی ہوگا جس میں درج ذیل شرائط ہوں : 1۔ مجلس میں کم ازکم تین افراد ہوں 2۔ تمام ارکان عادل ہوں 3۔فیصلہ میں علماء کو شریک کیاجائے 4۔سب ارکان متفقہ فیصلہ کریں (جدیدفقہی مباحث 3/147)
حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 376) صرحوا باستبدال الوقف إذا خرب وصار لا ينتفع به وهو شامل للأرض والدار،قال في الذخيرة وفي المنتقى قال هشام: سمعت محمدا يقول الوقف إذا صار بحيث لا ينتفع به المساكين فللقاضي أن يبيعه ويشتري بثمنه غيره وليس ذلك إلا للقاضي. اهـ. وفى حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 384) (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز. وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث، إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها، ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال قال: ولا يمكن قياسها على الأرض فإن الأرض إذا ضعفت لا يرغب غالبا في استئجارها بل في شرائها أما الدار فيرغب في استئجارها مدة طويلة لأجل تعميرها للسكنى على أن باب القياس مسدود في زماننا وإنما للعلماء النقل من الكتب المعتمدة كما صرحوا به. وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 395) إذا قضى بصحة الرجوع قاض حنفي صح ونفذ فإذا وقفه ثانيا على جهة أخرى وحكم به حاكم صح ولزم وصار المعتبر الثاني لتأيده بالحكم. اهـ. وفی الحیلۃ الناجزۃ (ص:136) أو جماعۃ المسلمین لأنھم یقومون مقام الحاکم العادل عند عدمہ.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب