021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم
61183 طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری اہلیہ نے سول فیملی کورٹ میں میرے خلاف خلع ،نان،نفقہ اور جہیز کی واپسی کا کیس اس سال داخل کیا جس میں میں اور میرا وکیل عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے،ہم نے صرف کیس کا جواب داخل کیا تھا،عدالت نے مجھے اور میرے وکیل کو سنے بغیر ہماری غیر حاضری میں عبوری حکم کے ساتھ نکاح کی تنسیخ کردی اور فیصلہ 16اگست کو جاری ہوا اس شرط کے ساتھ کہ فیصلہ 90دنوں میں صلح اور مفاہمت میں ناکامی کی صورت میں نافذ العمل ہوگا۔درج بالا حقائق کی روشنی میں مجھے درج ذیل سوالات کے شریعت کی روشنی میں جوابات عنایت فرما کر میری راہنمائی فرمائیں۔ 1۔کیا میرا اور میری بیوی کا نکاح عدالت کے فیصلے کے مطابق ختم ہوگیا ہے جبکہ عدالت میں میرا وکیل اور میں پیش نہیں ہوئے؟ 2۔کیا میری بیوی عدالتی فیصلے کے مطابق میری اجازت یا طلاق کے بغیر دوسری شادی یا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ تنقیح:استفتاء کے ساتھ منسلک عدالتی فیصلے کی کاپی سے معلوم ہوا کہ عورت شوہر سے نفرت کی بنا پر خلع کرنا چاہتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں صرف نفرت کی بنیاد پر نکاح کو فسخ نہیں کیا جاسکتا،اسی طرح خاوند کی عدم موجودگی میں اس کی رضاء کے بغیر عدالت خلع کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتی۔چونکہ مسئولہ صورت میں خلع کی شرط یعنی طرفین کی رضامندی نہیں پائی جاتی اور عدالتی فیصلے اور مستفتی سے براہ راست پوچھنے پر بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسباب فسخ نکاح میں سےکوئی معتبر سبب فسخ بھی موجود نہیں،اسلئے یہ فیصلہ شرعا غیر معتبر ہے،لہذا نکاح برقرار ہے اور عورت بدستور اپنے شوہر کےنکاح میں ہے ،دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی۔
حوالہ جات
قال شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی:"(قال) (والخلع جائز عند السلطان وغیرہ)لأنہ عقد یعتمدالتراضی کسائر العقود،وھو بمنزلۃ الطلاق بعوض،وللزوج ولایۃ إیقاع الطلاق،ولھا ولایۃ التزام العوض،فلا معنی لاشتراط حضرۃ السلطان فی ھذا العقد". (المبسوط للسرخسی:2/202،دار الکتب العلمیۃ) وقال العلامۃالکاسانی رحمہ اللہ تعالی:"وأما رکنہ(الخلع) فھو الإیجاب والقبول؛لأنہ عقد علی الطلاق بعوض،فلا تقع الفرقۃ،ولایستحق العوض بدون القبول". (بدائع الصنائع:4/315،دار الکتب العلمیۃ) وفی الفتاوی التاتارخانیۃ:"فی الملخص والإیضاح:الخلع عقد یفتقر إلی الإیجاب والقبول،یثبت الفرقۃ،ویستحق علیھا العوض". (3/453،إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ مذکورہ ڈگری کے شرعا غیرمعتبر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ استفتاء کے ساتھ منسلک عدالتی فیصلے کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ عدالت نے مذکورہ فیصلہ مسلم عائلی قوانین مجریہ 1964 کے دفعہ نمبر 10کے شق نمبر4 میں کی گئی ترمیم کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے ،جو شریعت کے احکامات کے خلاف ہے،جس کا عنوان مندرجہ ذیل ہے: "اگر راضی نامہ یا مصالحت ممکن نہ ہو تو عدالت مقدمہ میں تنقیحات وضع کرے گی اور (شہادت قلمبند کرنے کے لیے)کوئی تاریخ مقرر کرے گی۔" (مگر شرط یہ ہے کہ کسی عدالت یا ٹربیونل کے کسی فیصلے یا تجویز سے قطع نظر،اگر مصالحت ناکام ہو جائے تو عائلی عدالت تنسیخ نکاح کے دعوی میں فی الفور تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرے گی اور بیوی کی طرف سے نکاح کے موقع پر نکاح کے بدل میں وصول کیا گیا حق مہر بھی خاوند کو واپس دلائے گی) (مسلم عائلی قوانین بمع شرح وکیس لاء مشتمل بر :ص:35،36،ندیم لاء بک ہاؤس) اس شق میں جو ما بین القوسین عبارت ہے یہ وہ ترمیم ہے جو بعد میں اس شق میں کی گئی ہےاور جس پر عدالت نے مذکورہ فیصلہ دیا ہے۔اسی ترمیم کے متعلق قاضی محمدہارون مینگل صاحب دامت برکاتھم العالیۃ لکھتے ہیں:"اس دفعہ میں مؤرخہ01-10-2002 کو جو ترمیم کی گئ ہے،وہ شریعت کے احکامات کے خلاف ہےاور ناجائز ہے"۔آگے چل کر لکھتےہے:"بین القوسین کی عبارت جو کہ جملہ شرطیہ"مگر شرط یہ ہےکہ..."سے شروع اور"حق مہر..."پر ختم ہوتی ہے،وہ ترمیم ہےجوبذریعہ ترمیمی آرڈیننس LVآف2002مؤرخہ01-10-2002 کو کی گئی ہے،جس کی رو سے عدالت کو تنسیخ نکاح کی ڈگری دینے کا حکم دیا گیا ہے،خواہ شوہر اس تنسیخ پر راضی ہو یا نہ ہواور تنسیخ کےلیے کوئی شرعی وجہ من جملہ وجوہات تنسیخ نکاح میں موجود ہو یا نہ ہو۔ حق مہر کی واپسی سے طے پایا جاتا ہے کہ یہ حکم خلع کی صورت میں ہے،جب کہ شرعا خلع کے جواز کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے،ورنہ خلع جائز نہیں ہوگااور وہ حرام کاری کی مرتکب ہوگی اور اولاد ولد الزنا قرار پائےگی۔لہذااس ترمیم کو ختم ہونا چاہیے"۔ (اسلام کا نظام قضاء وتحکیم:ص277،278،مکتبۃ البشری)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب