021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
علاج کے احکامات
61242جائز و ناجائزامور کا بیانعلاج کابیان

سوال

۲۔ علاج کیسے طبیب سے کروانا چاہئے ِ ۳۔غیر مسلم ڈاکٹر سے علاج کا کیا حکم ؟ ۴۔سناہے کہ ڈاکٹرکے بتائے ہوئے پرہیز پر عمل کرنا ضروری ہے ، کسی نے پرہیز پر عمل نہیں کیا اور ہلاک ہوگیا تو یہ خود کشی شمار ہوگی کیایہ بات درست ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۲۔ علاج کسی مستند طبیب سے کراناچاہئے جو اپنے فن میں ماہر ہو ،جس طرح علاج سے لاپرواہی کرنا ٹھیک نہیں اسی طرح علاج میں زیادہ غلو بھی شرعا پسندیدہ نہیں کہ آدمی ماہر کی تلاش میں طاقت سے زیادہ خرچ کرے،اور ہر روز نیا ڈاکٹرتلاش کرے، بلکہ اعتدال سے علاج ہونا چاہئے، اورشفایابی کے لئے اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور بھروسہ کرناچاہئے ،کسی علاج سے فائدہ نہ ہو اس مشكاة المصابيح للتبريزي (1/ 21) وعن أبي خزامة عن أبيه قال سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت يا رسول الله أرأيت رقى نسترقيها ودواء نتداوى به وتقاة نتقيها هل ترد من قدر الله شيئا قال : " هي من قدر الله " . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه ۳۔غیر مسلم ڈاکٹر اگر اپنے فن میں ماہر ہو تو اس سے علاج کروانا جائز ہے ۔ ۴۔ڈاکٹر کے بتائے ہوئے پرہیز پرعمل کرنا چاہئے اور یہ عمل احتیاط کے درجہ میں ہے ، اس پر عمل نہ کرنا خلاف احتیاط ہے، لیکن کسی چیز کے بارے میں مریض کو تجربہ سے ثابت ہوجائے کہ اس کا استعمال صحت کے لئے مضر ہے یاتحقیق سے اس کا مضر ہونا غلبہ ظن کے درجے میں ثابت ہوا ہو توپھر اس کو استعمال کرنا گناہ ہوگا، تاہم اس صورت میں بھی مریض کی ہلاکت اگر یقینی طور پر اس بد پر ہیزی سے نہ ہو تو اس کو خود کشی کرنے والا نہیں کہا جاسکتا ۔ کو تقدیر کے حوالے کرناچاہئے ۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (43/ 299) وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال لا بأس بذلك ما لم يضر وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء ، وعن ابن المبارك كان ابن أبي ليلى يرد الجارية من أكل الطين وسئل أبو القاسم عمن أكل الطين قال ليس ذلك من عمل العقلاء ، كذا في الحاوي للفتاوى . الفتاوى الهندية (43/ 230) ( الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل ، وما يتصل به ) أما الأكل فعلى مراتب : فرض ، وهو ما يندفع به الهلاك ، فإن ترك الأكل والشرب حتى هلك فقد عصى .ومأجور عليه ، وهو ما زاد عليه ليتمكن من الصلاة قائما ويسهل عليه الصوم .ومباح ، وهو ما زاد على ذلك إلى الشبع لتزداد قوة البدن ، ولا أجر فيه ، ولا وزر ويحاسب عليه حسابا يسيرا إن كان من حل .وحرام ، وهو الأكل فوق الشبع إلا إذا قصد به التقوي على صوم الغد أو لئلا يستحيي الضيف فلا بأس بأكله فوق الشبع ، ولا تجوز الرياضة بتقليل الأكل حتى يضعف عن أداء الفرائض ، فأما تجويع النفس على وجه لا يعجز عن أداء العبادات فهو مباح ، وفيه رياضة النفس وبه يصير الطعام مشتهى بخلاف الأول ، فإنه إهلاك النفس ، وكذا الشاب الذي يخاف الشبق لا بأس بأن يمتنع عن الأكل ليكسر شهوته بالجوع على وجه لا يعجز عن أداء العبادات ، كذا في الاختيار شرح المختار .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب