کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسافر کے پاس ذاتی گاڑی ہے جس کی وجہ سے وہ سفر کی مشقت و تھکاوٹ سے کافی حد تک بچا ہوا ہےتو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ سفر کے دوران سنتیں پڑھ لیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سفر میں فجر کی سنتوں کو نہ چھوڑے۔باقی اگر کبھی جلدی میں سنتوں کا وقت نہ ہو تو انہیں بھی چھوڑ سکتا ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ االحصکفی رحمہ اللہ تعالی: ( ويأتي ) المسافر ( بالسنن ) إن كان ( في حال أمن وقرار ،وإلا ) بأن كان في خوف وفرار ( لا ) يأتي بها ،هو المختار؛ لأنه ترك لعذر، تجنيس . قيل: إلا سنة الفجر.
(الدر المختار:2/737،دار المعرفۃ،بیروت،لبنان)
وفی الفتاوی الہندیۃ:ولا قصر في السنن، كذا في محيط السرخسي.وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن،والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف،ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردري.
(:1/139،دار الفکر،بیروت)