021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قربانی کی کھالیں فلاحی تنظیم کے لیے استعمال کرنا
61720 قربانی کا بیانقربانی کی کھال کے مصارف کا بیان

سوال

ہم ہر سال بیواؤں اور یتیموں کے لیے اجتماعی قربانی کرتے ہیں اور قربانی کی کھالیں غربا کو دیتے ہیں۔ از روئے شریعت کیا یہ جائز ہے کہ ہم یہ کھالیں اپنی تنظیم کے لیے استعمال کریں؟ اگر نہیں تو کیا طریقہ ممکن ہے کہ ہم ان کھالوں کو اپنی تنظیم کے لیے کام میں لائیں، تاکہ یتیم اور غریب بچوں کی تعلیم اور بیوا خواتین کی خدمت میں تنظیم کی اعانت ہو۔ تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ کھالیں تنظیم کے لیے استعمال کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان سے تنظیم کے لیے کام کرنے والے ملازمین کو اجرت ادا کی جائے، یا ان سے تنظیم کی ٹرانسپورٹیشن اخراجات، یعنی سامان وغیرہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے مصارف ادا کیے جائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فلاحی ادارے کے لیے قربانی کی کھالیں وصول کرنا جائز ہے۔ لیکن ان کھالوں سے ملازمین کی اجرت یا تنظیم کے ٹرانسپورٹیشن اخراجات پورے کرنا جائز نہیں، بلکہ کھالیں بیچ کر ان کی قیمت مستحقِ زکوٰۃ لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر قربانی کرنے والے خود یا ان کی اجازت سے تنظیم کا نمائندہ کسی مستحق شخص کو باقاعدہ اس رقم کا مالک بنائے اور پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے محض اپنی خوشی سے وہ رقم تنظیم کے مذکورہ اخراجات کے لیے اپنی طرف سے دیدے تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ یہ رقم مستحقِ زکوٰۃ لوگوں کو دی جائے اور تنظیم کے مذکورہ اخراجات کے لیے الگ فنڈ بنایا جائے اور اس میں اس مد کے لیے عطیات وصول کی جائیں۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (12/ 25): قال: ويكره أن يبيع جلد الأضحية بعد الذبح لقوله عليه الصلاة والسلام: "من باع جلد أضحيته فلا أضحية له" وقال لعلي رضي الله عنه: "تصدق بجلالها وخطمها ولا تعط الجزار منها شيئا" فكما يكره له أن يعطي جلدها الجزار فكذلك يكره له أن يبيع الجلد، فإن فعل ذلك تصدق بثمنه كما لو باع شيئا من لحمها. قال: ولا بأس بأن يشتري بجلد الأضحية متاعا للبيت لأنه لو دبغه وانتفع به في بيته جاز وكذلك إذا اشترى به ما ينتفع به في بيته لأن للبدل حكم المبدل وهذا استحسان وقد ذكر في نوادر هشام قال: يشتري به الغربال والجراب وما أشبه ذلك ولا يشتري به الخل والمري والملح وما أشبه ذلك والقياس في الكل واحد ولكنه استحسن فقال ما يكون طريق الانتفاع به تناول العين فهو من باب التصرف على قصد التمول فليس له أن يفعل ذلك في جلد الأضحية وما ينتفع به في البيت مع بقاء العين فهو نظير عين الجلد وكان له أن يفعل ذلك.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب