021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودی قرض نکلوانے کا حکم
61810سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

سوال:مجھے گاڑی خریدنے کےلیے دولاکھ روپے کی ضرورت تھی ۔میں نےعسکری بینک سے تین سال کے لیے قرض نکلوا لیا جو مجھے سات ہزار روپے ماہانا قسط کے حساب سے ادا کر نے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایاکہ یہ جائز نہیں ۔کیا اس کی بات درست ہے ؟اگر درست ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے ؟میں گاڑی کی قیمت ادا کر چکا ہوں اور وہ گاڑی واپس بھی نہیں کر رہا ۔کیا میں اس معاملے کو جاری رکھوں؟ آئندہ کےلیے ایسا نہ کرنے کا ارادہ ہے۔یہ گاڑی استعمال کرنا میرے لیے کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرض اس طرح سے لینا دینا کہ ادائیگی میں زیادتی کی شرط لگائی گئی ہو سود میں شمار ہوتا ہے۔شرعا ًجیسے سود پر قرض دینا ناجائز اور حرام ہے بالکل اسی طرح سودی قرض لینابھی حرام ہے۔ آپ نے بینک سے قرض لیا جو آپکو تین سال میں مشروط طور پر زیادہ کرکے لوٹانا ہے۔لہذا یہ سودی قرضہ ہے،ایسا کرنا آپ کے لیے شرعاً جائز نہیں تھا۔ اب راستہ یہ ہے کہ آئندہ کے لیے سودی قرضہ نہ لینے کا عزم کر کے اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو بینک کوکہیں سے نقد ادائیگی کر کے معاملہ ختم کر دیں ۔اس مقصد کے لیے گاڑی کو فروخت کر کے کم قیمت گاڑی خریدی جا سکتی ہےاور یو ں بھی کیا جا سکتا ہے کہ اتنی مالیت کی کوئی چیز بازار سے ادھار قسطوں پر خرید لیں پھر نقد بیچ کر بینک کوادائیگی کر دیں اور بعد میں خریدی ہوئی چیز کی اقساط اداکرتے رہیں۔آئند ایسی ضرورت میں کسی اسلامی بینک سے رابطہ کیا جائے۔ البتہ اس گاڑی کو استعمال کرنا آپ کے لیے شرعا جائز ہے۔
حوالہ جات
﴿أَحَلَّ اللہ البيع وَحَرَّمَ الربا﴾ )البقرة : 275 ( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166) وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 396) وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية. واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب