021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کی مصنوعات کی تشہیرکےعوض اجرت لینا
61731اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دبئی کی ایک کمپنی اپنی مصنوعات بناتی ہے اور اس کی تشہیر کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہے۔ان مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ تشہیر یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک ڈسپوزایبل نمبر (جو کہ صرف میسج کے لیے کارآمد ہوتا ہے) خریدا جائے اور اس نمبر کے ذریعہ اس شخص کو کمپنی کی مصنوعات کے بارے میں میسج کیا جائے جس کو کمپنی کی مصنوعات مطلوب ہوں،تو میسج کرنے والے شخص کو کمپنی کی طرف سے منافع ملتا ہے۔تو کیا اس طرح کا کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مذکورہ بالا صورت میں جب تک اس شخص کو کوئی مستقل کاروبار نہ مل جائے تب تک اس شخص کا اس طرح کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کو اپنا ذریعہ معاش بنانا درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مذکورہ کمپنی حلال مصنوعات بناتی ہواور تشہیری عمل میں خلاف شرع کام نہ ہوتا ہو،نیز اجرت حلال یا غالب حلال سے ملتی ہو اور اجارے کے شرائط کے مطابق عقد ہوا ہو تو فی نفسہ یہ کاروبار جائز ہے اور اس کے بدلے ملنے والے منافع بھی جائز ہیں۔
حوالہ جات
قال الإمام برھان الدین المرغینانی رحمہ اللہ تعالی:" الإجارة عقد یردعلى المنافع بعوض ؛لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة ،وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد، لا يصح ،إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار ،وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره" وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة". (الھدایۃ:3/295،مکتبۃ رحمانیۃ) وقال الإمام فخر الدین الزیلعی رحمہ اللہ تعالی:" قال رحمه الله: (ولا يستحق الأجر حتى يعمل كالقصار والصباغ) يعني الأجيرالمشترك لايستحق الأجرةإلاإذاعمل؛لأن الإجارة عقد معاوضة،فتقتضي المساواة بينهما،فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر،لا يسلم له العوض، والمعقود عليه هو العمل،أو أثره على ما بينا،فلا بد من العمل." (تبیین الحقائق:5/134،المطبعة الكبرى الأميرية،بولاق) وفی الفتاوی الہندیۃ:" آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه ،وغالب ماله حرام،لا يقبل ، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه،أو استقرضه ، وإن كان غالب ماله حلالا، لا بأس بقبول هديته والأكل منها ، كذا في الملتقط" . (5/343،مکتبۃ رشیدیۃ،کوئٹہ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب