021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوطرفہ کمیشن لینا کب جائز ہے؟ اور کیوں؟
61767اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، سبزی اور فروٹ منڈی کے آڑھتی حضرات کمیشن پر سودا بیچتے ہیں، کمیشن ایجنٹ مالک اور مشتری دونوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دو طرفہ کمیشن لینا جائز ہے؟ بعض کتب فقہ وفتاوی میں عدمِ جواز بیان کیا گیا ہے، مثلاً "رد المحتار" اور "فتاویٰ دار العلوم دیوبند"۔ لیکن "کفایت المفتی" میں جہاں اس کا عدمِ جواز ذکر ہے وہیں "ادارۃ الفاروق، کراچی" سے شائع شدہ "کفایت المفتی" کے حاشیہ میں جواز منقول ہے۔ عبارت ملاحظہ ہو: "دلالی کا معاملہ اصالۃً جائز نہیں، مگر حاجت کی بنیاد پر فقہائے کرام نے اس کی اجازت دی ہے، یہ اجازت اپنے عموم کی حیثیت سے یکطرفہ، دو طرفہ دونوں کو شامل ہے، اگر عرف دونوں طرف سے اجرت لینے کا ہو تو پھر دونوں طرف سے بھی اجرت لینا جائز ہے۔" نیز "سٹیٹ ایجنسی سے متعلق کاروبار کے شرعی احکام" میں لکھا ہے: "دونوں طرف سے خدمات انجام دینے پر دو طرفہ کمیشن وصول کرسکتا ہے۔" لیکن اشکال یہ ہے کہ بائع کا خود بیچنا ہی جوازِ کمیشن کی علت کیوں ہے؟ کمیشن ایجنٹ اگر سامان میسر نہ کرے تو جیسے بائع کو پریشانی ہوگی ایسے ہی مشتری کو بھی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے لکھا ہے: "زمیندار اور مالک کو خود چیز بیچنا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے واپس جانا ہوتا ہے یا اس کا تعارف نہیں ہوتا تو کمیشن ایجنٹ اسے سہولت فراہم کرنے کی اجرت لیتا ہے۔" تو یہی مسئلہ مشتری کو بھی درپیش ہے۔ آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ قولِ منقح اور کلامِ فیصل بیان فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ بیع کا معاملہ بائع خود کرے، اور آڑھتی ان کے درمیان صرف واسطہ ہو۔ یہ شرط لگانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر سامان بائع خود نہ بیچے، بلکہ کمیشن ایجنٹ اس کی طرف سے وکیل بن کر سامان فروخت کرے تو ایسی صورت میں کمیشن ایجنٹ "عاقد" بن جائے گا، اور عاقد اس شخص سے کمیشن نہیں لے سکتا جس سے وہ عقد کررہا ہو؛ کیونکہ وہ اس کو کوئی اضافی خدمت فراہم نہیں کررہا، صرف سامان بیچ رہا ہے، لہٰذا وہ صرف سامان کی قیمت وصول کرنے کا حق دار ہے، کمیشن کا حقدار نہیں۔ جہاں تک آپ کے اشکال کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ کہ کمیشن کا جواز " مطلق سہولت" میسر کرنے کی وجہ سے نہیں ہے، ورنہ وہ تو ہر بائع مشتری کو مہیا کرتا ہے، لیکن ظاہر ہے اس کی وجہ سے بائع کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں، وہ صرف سامان کی قیمت ہی وصول کرسکتا ہے۔ کمیشن کا جواز بیع وشراء کے سوا کوئی سہولت مہیا کرنے کی وجہ سے ہے۔ اور جب بائع خود سامان بیچتا ہے تو اس صورت میں آڑھتی بائع اور مشتری دونوں کو بیع وشراء کے علاوہ ایک سروس فراہم کررہا ہوتا ہے، اس لیے وہ عرف کے مطابق کسی ایک سے یا دونوں سے کمیشن لے سکتا ہے۔ لیکن جب آڑھتی ہی سامان بیچے تو اس صورت میں وہ صرف بائع سے کمیشن وصول کرسکتا ہے، مشتری سے وصول نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ مشتری کو بیع کے سوا کوئی سروس فراہم نہیں کررہا جس کی بنیاد پر وہ کمیشن کا حق دار ٹھہرے۔ البتہ آڑھتی کا وکیل ہونے کی حیثیت سے سامان بیچنے کی صورت میں اگر سامان کا مالک (مؤکل) اس کے لیے کچھ نہ کچھ کمیشن ایک طے شدہ رقم کی صورت میں مقرر کردے اور اس کے بعد وہ دونوں آپس میں سامان کی ایک قیمت بھی طے کرلیں اور ساتھ یہ بھی طے ہوجائے کہ اگر آڑھتی اس سے زیادہ میں سامان بیچے گا تو زائد رقم اس کو ملے گی، تو ایسی صورت میں آڑھتی مشتری سے کمیشن لینے کے بجائے سامان کو اپنے مؤکل کے ساتھ طے شدہ قیمت سے زیادہ میں بیچ کر اضافی رقم خود رکھ سکتا ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (6/ 63): مطلب في أجرة الدلال: ( تتمة) قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام. وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة. جامع الفصولين (2/ 114): الدلال إذا باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالية من المشتري إذ هو العاقد حقيقةً، وتجب الدلالية على البائع إذ قبل بأمر البائع، ولو سعى الدلال بينهما فباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالية على البائع أو على المشتري أو عليهما بحسب العرف. الدر المختار (4/ 560): وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع، وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية. رد المحتار (4/ 560): قوله ( فأجرته على البائع ) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقةً شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له، قوله ( يعتبر العرف ) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف، جامع الفصولين. درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 231) : مصارف الدلالة :- إذا باع الدلال مالاً بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري لأنه العاقد حقيقةً، وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له، أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه، أو من المشتري أخذت منه، أو من الإثنين أخذت منهما ' انظر المادة 45…. الخ ( طحطاوي، الدر المختار، رد المحتار ) . صحيح البخاري- طوق النجاة (3/ 92): قال ابن عباس: لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك، وقال ابن سيرين: إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به. عمدة القاري (18/ 286، بترقيم الشاملة آليا): في ( التلويح ) وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع وممن كرهه الثوري والكوفيون وقال الشافعي ومالك لا يجوز فإن باع فله أجر مثله وأجازه أحمد وإسحاق وقالا هو من باب القراض وقد لا يربح المقارض. النتف في الفتاوى (2/ 575): والخامس إجارة السمسار لايجوز ذلك، وكذلك لو قال بع هذا الثوب بعشرة دراهم فما زاد فهو لك، وإن فعل فله أجر المثل.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب