021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آڑھتی کے بائع ہونے کی صورت میں مشتری سے لیے گئے کمیشن کا حکم
61767 .2اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

آڑھتی کے بائع ہونے کی صورت میں اگر دو طرفہ کمیشن لینا جائز نہیں تو اب تک جو پیسے لیے گئے ہیں ان کا کیا حکم ہوگا؟ جن لوگوں سے کمیشن لی گئی ہیں ان میں سے کچھ تو موجود ہیں، لیکن کچھ غائب ہوچکے ہیں۔ دوسری پریشانی اس میں یہ ہے کہ ہم باوجود تحری کے پیسہ کا تعین نہیں کرسکتے، کیونکہ کئی لوگ پیسے دیتے وقت یہ کمیشن اور بعض اس کے ساتھ مزید پیسے چھڑوادیتے ہیں۔ نیز ان میں سے اکثر لوگ ہمارے مقروض بھی ہیں۔ اور اس میں "دینِ ضعیف" (ڈوبا ہوا پیسہ) بھی ہے۔ مزید یہ کہ جو ان میں سے فوت ہوچکے ہیں اور پیسوں کی ادائیگی سے مایوسی پر معاف کردئیے گئے ہیں۔ تنقیح: خط کشیدہ عبارت کی وضاحت کرتے ہوئے سائل نے فون پر بتایا کہ جب معاملہ ہوجاتا تھا، سامان کی ایک قیمت اور کمیشن طے ہوجاتی تھی تو اس کے بعد جب مشتری پیسے دینے آتا تھا تو وہ ہم سے پیسے کم کرواتا تھا اور طے شدہ پیسوں سے کم پیسے دیتا، مثلاً اگر کسی چیز کی قیمت دس ہزار روپے طے ہوجاتی تھی تو وہ نو ہزار روپے دے کر ایک ہزار روپے چھڑوالیتا تھا۔ نیز جن لوگوں سے ہم نے کمیشن لی ہے ان میں بعض ہمارے مقروض ہیں، بعض ایسے مقروض ہیں جن سے قرضہ ملنے کی امید نہیں ہے۔ جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جو فوت ہوگئے ہیں اور مایوس ہونے پر ہم نے اپنا قرضہ ان کو معاف کردیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ نے کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے بائع کا وکیل بن کر سامان بیچنے کی صورت میں مشتری سے کمیشن کے نام پر جتنی رقم لی ہے وہ مشتری یا اس کے ورثا کو واپس کرنا ضروری ہے۔ البتہ جو لوگ باجود تلاش کے نہ مل سکیں اور ان کے ورثا بھی معلوم نہ ہوں تو ان سے لی گئی رقم ان کی طرف سے صدقہ کرنا لازم ہے۔ (لیکن اگر آپ نے مشتری سے کمیشن کے نام پر کوئی رقم نہیں لی تھی، بلکہ اپنے مؤکل یعنی مالکِ سامان سے کچھ نہ کچھ کمیشن اور سامان کی ایک قیمت طے کرکے اس سے زیادہ پر بیچنے کی صورت میں اضافی رقم خود لینے کی بات کی تھی اور پھر اس قیمت سے زیادہ میں بیچ کر اضافی رقم خود رکھی ہو تو وہ اضافی رقم واپس کرنا لازم نہیں)۔ سامان کی ایک قیمت اور کمیشن طے ہونے کے بعد اگر کسی مشتری نے کمیشن کی رقم آپ کو نہیں دی تھی تو آپ کے ذمے اس کو کچھ دینا واجب نہیں، لیکن اگر اس نے کمیشن کی رقم تو دی تھی، مگر سامان کی قیمت میں کمی کرائی تھی تو سامان کی قیمت میں کمی کرانے سے اس کا حق آپ کے ذمے سے ساقط نہیں ہوا، اس سے لی گئی رقم لوٹانا لازم ہے۔ تحری کرنے کے باوجود اگر پیسوں کی صحیح مقدار معلوم نہ ہو تو ظنِ غالب پر فیصلہ کریں یعنی جتنے پیسے لینے کا غالب گمان ہو اتنے پیسے واپس کریں، احتیاط کے پیشِ نظر کچھ زیادہ دیں تو بہتر ہے۔ ان میں سے جو لوگ آپ کے مقروض ہیں ان سے بطورِ کمیشن لی گئی رقم سے اپنے قرضہ کو منہا کرکے بقیہ رقم واپس کرنا لازم ہے۔ لیکن جن لوگوں کا قرضہ آپ نے معاف کردیا ہے ان سے لی گئی کمیشن سے اب آپ اپنا قرضہ منہا نہیں کرسکتے، اس لیے کہ معاف کرنے کے بعد آپ کا قرض ان کے ذمے نہیں رہا، اس لیے ان کی رقم ان کو یا ان کے ورثا کو لوٹانا، یا ان کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
فقه البیوع: أحکام المال الحرام (2/1005) : المال الحرام أوالخبیث علی أقسام: القسم الأول ماکان محرماً علی المرءلکونه ملکاًللغیر، و هومثل المال المغصوب الذی هومقبوض بیدالغاصب،ویشمل هذاالتعبیرکل مال حرام لایملکه المرء فی الشرع، سواءکان غصباً، أوسرقةً،أورشوةً،أورباًفی القرض،أومأخوذاًببیع باطل.وأنه حرام للکاسب الانتفاع به،أوالتصرف فیه،فیجب علیه أن یرده الی مالکه، أوالی وارثه بعدوفاته، وإن لم یمکن ذلك لعدم معرفة المالک أووارثه، أو لتعذرالردعلیه لسبب من الأسباب، وجب علیه التخلص منه بتصدقه من غیر نیة ثواب الصدقة لنفسه…الخ رد المحتار (6/ 501): وظاهره أنه من غير جنس حقه وإلا فلو من جنسه فله أخذ قدر حقه منه بلا كلام، ولا وجه لحكايته بقيل على أنا قدمنا في كتاب الحجر عن المقدسي عن بعضهم أن الفتوى اليوم على جواز الأخذ مطلقاً. الفقه الإسلامي وأدلته (4/ 383): وقال الشافعية: لصاحب الحق استيفاء حقه بنفسه بأي طريق، سواء أكان من جنس حقه، أم من غير جنسه، لقوله تعالى: {وجزاء سيئة سيئة مثلها} [الشورى:40/42]، {وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به} [النحل:126/16] والمثلية ليست من كل وجه، وإنما في المال. ولقوله عليه السلام: «من وجد عين ماله عند رجل فهو أحق به» . ووافق الحنفية على رأي الشافعية فيما إذا كان المأخوذ من جنس حقه لا من غيره، والمفتى به اليوم كما قال ابن عابدين جواز الأخذ من جنس الحق أو من غيره، لفساد الذمم والمماطلة في وفاء الديون. تکملة فتح الملهم (2/578): مسئلة الظفر: المتأخرون من الحنفیة أفتوا فی هذه المسألة بمذهب الشافعی. الأشباه والنظائر (ص: 93): الشك تساوي الطرفين، والظن الطرف الراجح، وهو ترجيح جهة الصواب، والوهم رجحان جهة الخطأ، وأما أكبر الرأي وغالب الظن فهو الطرف الراجح إذا أخذ به القلب وهو المعتبر عند الفقهاء كما ذكره اللامشي في أصوله، و حاصله أن الظن عند الفقهاء من قبيل الشك لأنهم يريدون به التردد بين وجود الشيء وعدمه سواء استويا أو ترجح أحدهما، وكذا قالوا في كتاب الإقرار : لو قال : له علي ألف درهم في ظني لا يلزمه شيء لأنه للشك انتهى. وغالب الظن عندهم ملحق باليقين وهو الذي تبتنى عليه الأحكام يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق، وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع وإذا غلب على ظنه وقع.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب