021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کپڑے کے کاروبار میں سود کی صورتیں
61815 سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

السلام علیکم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ کپڑے کے کاروبار میں کن صورتوں میں سود ہوجاتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سود کی دو قسمیں ہیں، اور یہ دونوں قسمیں کپڑے کے کاروبار میں ہوسکتی ہیں:- (1)۔۔۔ پہلی قسم: قرض پر کسی بھی قسم کی زیادتی کا مطالبہ کرنا۔ مثلاً: کسی شخص کو 100 روپے اس شرط پر قرض دیے کہ وہ اس کے بدلے 105 روپے واپس کرے گا، یا کسی کو سو روپے میں کپڑا ایک مہینہ ادھار پر بیچ دیا، مہینہ پورا ہونے پر خریدار پیسے نہ دے سکا تو بائع (بیچنے والے) نے اس سے کہا کہ میں آپ کو مزید 10 دن کی مہلت دیتا ہوں لیکن 10 دن گذرنے کے بعد تم مجھے اس کپڑے کی قیمت 100 روپے نہیں بلکہ 105 روپے دوگے تو یہ بھی سود ہے۔ (2)۔۔۔ دوسری قسم: ایک جنس، اور ایک وزن یا ایک پیمانہ والی اشیاء کے باہم تبادلے میں کمی، زیادتی یا ادھار کا معاملہ کرنا۔ (جو چیزیں ایک جنس کی ہوں اور ان کا وزن یا پیمانہ بھی ایک ہو، ان کے باہم تبادلے میں کمی زیادتی اور ادھار دونوں حرام ہیں۔ اور اگر جنس اور وزن وپیمانے میں سے ایک چیز تو مشترک ہو لیکن ایک چیز میں مختلف ہو تو پھر کمی زیادتی جائز ہے، لیکن ادھار جائز نہیں)۔ کپڑوں کو چونکہ وزن یا پیمانہ کے ذریعے نہیں بیچا جاتا، بلکہ ناپ کر بیچا جاتا ہے، اس لیے کپڑوں کو باہمی تبادلے کے وقت کمی زیادتی کے ساتھ بیچنا جائز ہے۔ البتہ اگر کپڑے ایک جنس کے ہوں تو ان کے باہم تبادلے کے وقت ادھار جائز نہیں ہوگا؛ لأن الجنس بانفراده یحرم النسیئة. ایک جنس کے کپڑے وہ کپڑے کہلائیں گے جو ایک کمپنی کے بنے ہوئے ہوں، ان کا میٹیرئیل ایک ہو، اور ان کی صنعت بھی ایک جیسی ہو۔
حوالہ جات
الدر المختار (5/ 168): باب الربا: هو لغة مطلق الزيادة وشرعا ( فضل ) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض، قنية و بحر ( خال عن عوض ) خرج مسألة صرف الجنس بخلاف جنسه ( بمعيار شرعي ) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا. حاشية ابن عابدين (5/ 169): قوله ( فليس الذرع والعد بربا ) أي بذي ربا أو بمعيار ربا فهو على حذف مضاف أو الذرع والعد بمعنى المذروع والمعدود أي لا يتحقق فيهما ربا، والمراد ربا الفضل لتحقق ربا النسيئة فلو باع خمسة أذرع من الهروي بستة أذرع منه أو بيضة ببيضتين جاز لو يداً بيدٍ لا لو نسيئةً لأن وجود الجنس فقط يحرم النساء لا الفضل كوجود القدر فقط كما يأتي. فقه البیوع (2/670): و علی ھذا، فالثیاب المنسوجة ببلادٍ مختلفۃٍ أوشرکاتٍ مختلفةٍ، تعتبر أجناساً مختلفةً إن کان بینھا تفاوت فی الصناعة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب