021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کفریہ الفاظ کا حکم
61981ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام ان مسائل کے بارے میں: 1۔اگر کسی عورت کے منہ سے شرکیہ کلمات نکلے،چاہے جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں تو ان سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ 2۔اگر کفریہ کلمات کہے اور فورا کلمہ پڑھا تو اس صورت میں بھی نکاح ٹوٹا یا نہیں؟ 3۔اگر کفریہ کلمات کہے اور کچھ دیر بعد مثلا پانچ یا دس منٹ بعد کلمہ پڑھا تو نکاح ٹوٹا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2،3۔جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے متفقہ طور پر کفر لازم آتا ہےیاضروریاتِ دین میں کوئی ایسی تاویل اور تحریف کرے جو امت کے اجماعی اور متفقہ معانی کے خلاف ہو تو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے اور تجدید نکاح بھی اور اگر کوئی ایسا جملہ کہہ دیا جس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو،یا کلمہ تو متفقہ طور پر کفریہ ہی ہو،لیکن متکلم کو اس کے کفریہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس پر اس سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے اور احتیاطا تجدید نکاح بھی کروالیا جائے۔ اور ایسے الفاظ جو کفریہ تو نہیں،لیکن ان کا کہنا غلط ہو تو ان کے زبان سے نکلنے کی وجہ سے آدمی دائرہ اسلام سے تو نہیں نکلتا اور نہ ہی نکاح ٹوٹتا ہے،البتہ سخت گناہ ہے اور ان سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے۔ نیز اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ نوٹ: چونکہ مختلف صورتیں ہے اور ہر ایک کا حکم دوسری سے مختلف ہے،اس لیے مسئلہ پیش آنے کی صورت میں خود فیصلہ کرنے کے بجائے مستند مفتیانِ کرام سے رجوع کرکے حکم معلوم کیا جائے۔
حوالہ جات
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687): "فما يكون كفرا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حج ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لا يرتفع الكفر وما كان في كونه كفرا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطا وما كان خطأ من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق". "الدر المختار " (4/ 224): "(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لا يعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع". قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ". "مسوی شرح مؤطا " (2/ 130): "وان اعترف بہ ظاھرا ولکن یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسرہ الصحابة و التابعون و اجمعت علیہ الامة فھوالزندیق کما اذا اعترف بان القرآن حق ومافیہ من ذکر الجنة والنار حق،لکن المراد بالجنة الابتھاج الذی یحصل بسسب الملکات المحمودة والمراد بالنار ھی الندامة التی تحصل بسبب الملکات المذمومة ولیس فی الخارج جنة ولا نار فھو زندیق".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب