03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیرکاٹےبھیڑ کی اون فروخت کرنا
62231خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں (بھیڑ بکریوں والوں میں)یہ رواج ہے کہ جب بھیڑ پر اون نکل آتا ہے تو پورے ریوڑ میں جتنی بھیڑیں ہوتی ہیں ان سب کی اون کو فروخت کرتے ہیں اور پیسے وصول کرتے ہیں،پھر خریدنے والا اپنی مرضی سے اون کاٹ کاٹ کر لیجاتا ہے۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟اگر نہیں تو پھر جائز صورت بتائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جانورکے جسم سے اون کاٹنے سے پہلےفروخت کرنا جائز نہیں ہے۔اس کی جائز صورت یہ ہے کہ پہلے اون کو کاٹاجائے پھر اس کو فروخت کیا جائے۔
حوالہ جات
قال ملک العلماء الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:" وكذا(لا ینعقد) بيع الصوف على ظهر الغنم في ظاهر الرواية؛ لأنه ينمو ساعة فساعة،فيختلط الموجود عند العقد بالحادث بعده على وجه لا يمكن التمييز بينهما،فصار معجوز التسليم بالجز والنتف واستخراج أصله، وهو غير مستحق بالعقد .وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي عليه الصلاة والسلام : "أنه نهى عن بيع الصوف على ظهر الغنم." (بدائع الصنائع:5/148،دار الکتب العلمیۃ) وقال الإمام برھان الدین المرغینانی رحمہ اللہ تعالی:" قال: "ولا(یجوز) الصوف على ظهر الغنم"؛ لأنه من أوصاف الحيوان، ولأنه ينبت من أسفل فيختلط المبيع بغيره... والقطع في الصوف متعين فيقع التنازع في موضع القطع.وقد صح أنه عليه الصلاة والسلام "نهى عن بيع الصوف على ظهر الغنم، وعن لبن في ضرع، وعن سمن في لبن." (الھدایۃ:3/44 دار احياء التراث العربي ،بيروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب