021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غائب شخص کی بیوی کے لئے خلاصی کاطریقہ
62239طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

شادی کوایک سال سے زیادہ کاعرصہ ہوچکاہے،بچے بھی کوئی نہیں،شادی کے تین ماہ بعدہی لڑکادبئی چلاگیاتھا،اب اس لڑکے سے کوئی رابطہ نہیں،تب سے لڑکی اپنے ماں باپ کے گھرمیں رہتی ہے،لڑکی کے گھروالوں نے لڑکے کے بارےمیں معلوم کرنے کی کوشش کی ،لیکن کچھ پتہ نہیں چلا،لڑکےکے گھروالے بھی کچھ نہیں بتاتے،فقط اتنامعلوم ہے کہ وہ دبئی میں ہے۔اب دریافت یہ کرناہے کہ اس صورت میں لڑکی کے گھروالوں کوکیاکرناچاہیے،اس طرح کی لاتعلقی کے بارے میں شریعت کیاکہتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مام ممکنہ اوردستیاب طریقوں اورتعلقات کواستعمال کرکے شوہر سے رابطہ کی کوشش کی جائےاور اس کاپتہ لگایاجائے،نیز شوہر کے رشتہ داروں کے ذریعہ سے اس کاپتہ لگایاجائے، ،اوراگرکسی بھی طریقہ سے اس کاعلم نہ ہوسکے اور کسی گناہ میں مبتلاہوجانے کاقوی اندیشہ ہو تو عدالت میں اس وجہ کو بنیاد بناکر قاضی کے فیصلہ سے نکاح کو فسخ کرالیاجائے،فسخ نکاح کاطریقہ یہ ہے کہ کسی مسلمان قاضی کی عدالت میں اپنامقدمہ دائر کرکے اپنامسئلہ پیش کرکے اس بات پر گواہ پیش کریں کہ اتنے عرصہ سے میرااس کارابطہ نہیں اورمقدوربھر کوشش سے اس سے رابطہ نہیں ہوسکا ،لہذاعدالت میرانکاح اس سے ختم کردے ،پھرمذکورہ عدالت اپنے ممکنہ طریقوں کوبروئے کارلاتے ہوئے شوہر کوتلاش کرے ،اگرعدالت کے تلاش کرنے کے باوجودبھی شوہر سے رابطہ نہ ہوسکے توعدالت بیوی کوچارسال کی مہلت دے ،اگران چارسالوں میں بھی شوہر کاکوئی پتہ نہ لگ سکے توپھر بیوی عدالت سے دوبارہ رجوع کرکے فسخ نکاح کی ڈگری لے لیں ۔ فسخ نکاح کے بعد عورت عدت وفات یعنی چارماہ دس دن گزارکرکہیں اورنکاح کرسکتی ہے ۔ چارسال کے انتظارکاحکم اس وقت ہے جب اس دوران عورت کے لئےنان ونفقہ کاانتظام ہواورعفت وعصمت کے ساتھ یہ مدت گزارسکتی ہو،اگرنان ونفقہ کاانتظام نہ ہو،نہ شوہر کے مال سے ،نہ کسی عزیزوقریبی رشتہ دارکی طرف سے اورنہ خودعورت عزت وعصمت کی حفاظت کرتے ہوئے کماکرگزارہ کرسکتی ہو توجب تک صبر ہوسکے شوہر کاانتظارکرے ،جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو،اس کے بعد عدالت جاکر یہ ثابت کرے کہ میراشوہر اتنی مدت سے غائب ہے اوراس نے میرے لئے نان ونفقہ نہیں چھوڑااور نہ کسی کوضامن بنایا،نہ میں نے اسے اپنانفقہ معاف کیااور ان باتوں پر قسم بھی کھائے ،مذکورہ کاروائی کےبعد عدالت فسخ نکاح کافیصلہ دے تونکاح فسخ ہوجائے گا۔ اوراگرنفقہ کاانتظام ہے لیکن شوہر کے بغیر رہنے میں اپنی عفت وعصمت ضائع ہونے کااندیشہ ہےتوسال بھرصبرکرنے کے بعد عدالت سے رجوع کرکے اپنے شوہر کاگم ہوناثابت کرکے اوراس پر قسم کھاکرکہ میں بغیرشوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی عدالت سےفسخ نکاح کرالے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ فسخ نکاح طلاق رجعی کے حکم میں ہوگا،اس لئے اس صورت میں طلاق کی عدت تین حیض گزارکرکہیں اورنکاح کرسکتی ہیں ۔ ملاحظہ : عام طورپر اس بات کالحاظ رکھناضروری ہوتاہے کہ نفقہ نہ ہونے کی صورت میں حاکم کےفیصلے سے پہلے ایک ماہ اورعفت وعصمت کے خطرے کی صورت میں کم ازکم ایک سال کاعرصہ گزرجاناضروری ہے۔ نیز جہاں عدالت سے رجوع ممکن نہ ہو،یاعدالت توہولیکن وہ فیصلے شریعت کے مطابق نہ کرتی ہوتوصالح مسلمانوں کی جماعت مذکورہ طریقہ کے مطابق نکاح فسخ کرسکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں: 1۔جماعت کے ارکان کم ازکم تین ہوں ۔ 2۔تمام ارکان دیندارہوں ۔ 3۔ان میں کم ازکم ایک ایساعالم ہوجوشہادت اورقضاء کے شرعی احکام سے پورےطورپرواقف ہو۔ 4۔فسخ نکاح کافیصلہ تمام ارکان کی اتفاق رائے سے ہو۔
حوالہ جات
المدونة الكبرى (ج 4 / ص 216): "أرأيت امرأة المفقودأتعتد الاربع سنين في قول مالك بغير أمر السلطان (قال) قال مالك :لا،قال مالك: وان أقامت عشرين سنة ثم رفعت أمرها إلى السلطان نظر فيهاوكتب إلى موضعه الذى خرج إليه فان يئس منه ضرب لها من تلك الساعةأربع سنين [ فقيل ] لمالك هل تعتد بعد الاربع سنين عدة الوفاةأربعة أشهر وعشرا من غير أن يأمرها السلطان بذلك (قال) نعم مالهاوما للسلطان في الاربعة الاشهروعشر التى هي عدة [ مالك ] عن يحيى بن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قال :أيما امرأة فقدت زوجها فلم تدر أين هو فانها تنتظر أربع سنين ثم تعتد أربعه أشهر وعشرا ثم تحل." الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (ج 3 / ص 1023): "والمفقود" وهو كما قال ابن عرفة: من انقطع خبره ممكن الكشف عنه، فالأسير ونحوه مما لا يمكن الكشف عنه لا يسمى مفقودا في اصطلاح الفقهاء، والمراد هنا المفقود في بلاد الإسلام، كما يعلم من إمكان الكشف عنه ولم يعلم له موضع وكان فقده في غير مجاعة ولا وباء، فإن لم ترض زوجته بالصبر إلى قدومه فلها أن ترفع أمرها إلى الخليفة أو القاضي أو من يقوم مقامه في عدمه، أو والي الماء وهو الذي يجبي الزكاة، فإن لم تجد واحدا من هؤلاء رفعت لصالحي جيرانها ليفحصوا عن حال زوجها، لكن بعد أن تثبت الزوجية وغيبة الزوج والبقاء في العصمةإلى الآن، وإذا ثبت ذلك عنده كتب كتابا مشتملا على اسمه ونسبه وصفته إلى حاكم البلد الذي يظن وجوده فيه، وإن لم يظن وجوده في بلد بعينه كتب إلى البلد الجامع، واستصوب ابن ناجي أن أجرة الرسول الذي يفحص عن المفقود على الزوجة، فإذا انتهى الكشف ورجع إليه الرسول وأخبره بعدم وقوفه على خبره فالواجب أن "يضرب له أجل" قدره "أربع سنين" للحر وسنتان للعبد، والمعتمد أن هذا التحديد محض تعبد لفعل عمر بن الخطاب وأجمع عليه الصحابة، ومحل التأجيل المذكور إن كان للمفقود مال تنفق منه المرأة على نفسها في الأجل، وأما إن لم يكن له مال فلها التطليق عليه بالإعسار من غير تأجيل لكن بعد إثبات ما تقدم، وتزيد إثبات العدم واستحقاقها للنفقة وتحلف مع البينة الشاهدة لها أنها لم تقبض منه نفقة هذه المدة ولا أسقطتها عنه، وبعد ذلك يمكنها الحاكم من تطليق نفسها بأن توقعه ويحكم به أو يوقعه الحاكم، ومثل المفقود من علم موضعه وشكت زوجته من عدم النفقة يرسل إليه القاضي: وإما أن تحضر أو ترسل النفقة أو تطلقها، وإلا طلقها الحاكم، بل لو كان حاضرا وعدمت النفقة. قال خليل: ولها الفسخ إن عجز عن نفقة حاضرة لا ماضية، ثم بعد الطلاق تعتد عدة طلاق بثلاثة أقراء للحرة وقرأين للأمة فيمن تحيض، وإلا فثلاثة أشهر للحرة والزوجة الأمة لاستوائهما في الأشهر."
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب