میرے ساتھ ایک مسئلہ ہوا ہے وہ یہ کہ میرے شوہر کا میرے ساتھ کافی عرصہ سے ناراضگی اور لاتعلقی ہے۔ایک دن میری سہیلی نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل نکلا ہے یعنی کسی طرح رضامندی اختیار کرلیں،تو میں نے کہا(نعوذباللہ)اگر اللہ تعالی بھی زمین پر اتر آئے اور راضی ہونے کو کہے تو بھی راضی نا ہونگی اور استغفر اللہ میں نے دل سے کہا ہے اور ایک سائٹ کی جگہ کی طرف آنکھوں سے اشارہ بھی کیا۔کیا میرا نکاح ٹوٹ گیا اور کیا اللہ تعالی بہت ناراض ہونگے؟اس مجلس کے بعد سہیلی کے جانے کے بعدتوبہ بھی کی ہے اور کلمہ بھی پڑھا ہے۔میں خاص نکاح کا پوچھ رہی ہوں کہ نکاح ٹوٹا ہے یا نہیں؟میں اس واقعہ کے بعد بہت پریشان ہوں ،لازمی اور جلدی جواب دیجیے گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالا کلمات کفریہ کلمات ہیں جس سے ایمان ختم ہوجاتاہے،لیکن نکاح نہیں ٹوٹتا اور عورت بدستورسابقہ خاوند کے نکاح میں رہے گی،کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی۔ایسے کلمات اللہ کی سخت ناراضی کا سبب اور اس کے عذاب کو کھلی دعوت دینے کے مترادف ہیں،آئندہ ایسے کلمات کہنے سے حد درجہ اجتناب کریں۔
چونکہ مذکورہ کلمات کہنے کے بعد آپ نے توبہ کی ہے اور کلمہ بھی پڑھا ہے،لہذا ایمان کی تجدید تو ہوگئی ہے،لیکن ازدواجی تعلقات سے پہلے نئے مہر کے ساتھ نکاح کی تجدید ضروری ہے۔
حوالہ جات
(کذا فی الحیلۃ الناجزۃ:ص:114،115وفی احسن الفتاوی:6/363وجواہر الفقہ:4/301،302)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:" وتجبر(المرتدۃ) على الإسلام، وعلى تجديد النكاح زجرا لها بمهر يسير كدينار،وعليه الفتوى .ولوالجية.وأفتى مشايخ بلخ بعدم الفرقة بردتها؛زجرا وتيسيرا، لا سيما التي تقع في المكفر، ثم تنكر. قال في النهر: والإفتاء بهذا أولى من الإفتاء بما في النوادر."
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:"قوله :(زجرا لها): عبارة البحر حسما لباب المعصية، والحيلة للخلاص منه اهـ ولا يلزم من هذا أن يكون الجبر على تجديد النكاح مقصورا على ما إذا ارتدت لأجل الخلاص منه، بل قالوا ذلك سدا لهذا الباب من أصله ،سواء تعمدت الحيلة أم لا؛ كي لا تجعل ذلك حيلة. قوله:( قال في النهر إلخ): عبارته: ولا يخفى أن الإفتاء بما اختاره بعض أئمة بلخ أولى من الإفتاء بمافي النوادر، ولقد شاهدنا من المشاق في تجديدها ،فضلا عن جبره بالضرب ونحوه ما لا يعد ولا يحد."
(الدر المختار:3/194،195،دار الفکر،بیروت)
وفی الفتاوی الہندیۃ:" يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به ، أو سخر باسم من أسمائه ، أو بأمر من أوامره ، أو نكر وعده ووعيده ، أو جعل له شريكا ، أو ولدا ، أو زوجة ، أو نسبه إلى الجهل ، أو العجز ، أو النقص... إذا قال : لو أمرني الله بكذا،لم أفعل، فقد كفر.كذا في الكافي."(17/85،86)