021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قاری کا پہلے بچے کے علاوہ باقی کو ناظرہ یا قاعدہ پڑھاتے وقت تعوذ و تسمیہ نہ پڑھنا
62459/57 علم کا بیانقرآن کریم کی تعظیم اور تلاوت کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک قاری صاحب بچوں کو ناظرہ وقاعدہ پڑھاتے وقت صرف ایک بچےکے سبق کی ابتدا میں تعوذ و تسمیہ پڑھ لیتے ہیں،باقی بچوں کو بغیر تعوذ و تسمیہ کے پڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہر بچے کے لیے الگ تسمیہ پڑھوں۔کیا قاری صاحب کا یہ طریقہ تعلیم درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآنِ مجید پڑھتے اور پڑھاتے وقت شروع میں تعوذ و تسمیہ پڑھنا اِس کے آداب میں سے ہے،لہذا اگر قاری صاحب نے ابتدا میں تعوذ پڑھنے کے بعد درمیان میں کوئی ایسا کام یا ایسی بات نہیں کی جو قراءت کے منافی اور اس کو قطع کرتی ہے تو پھر ان کےلیے شروع والی تعوذ و تسمیہ کافی ہے،ہر بچے کو پڑھاتے وقت الگ تعوذ و تسمیہ کی ضرورت نہیں۔اگر درمیان میں تعلیم کے علاوہ کوئی اور کام کیا یا طویل وقفہ کردیا تو دوبارہ قراءت و تعلیم شروع کرتے وقت تعوذ وتسمیہ پڑھنا چاہیے اور دوسروں پر نکتہ چینی کے بجائے اپنے اعمال پر توجہ دینی چاہیے۔
حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالی:”فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“. [النحل: 98] قال العلامۃ آلوسی رحمہ اللہ: فقيل:”فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ“ أي: إذا أردت قراءة القرآن فاسأله عز جاره أن يعيذك مِنَ وساوس الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ كي لا يوسوسك في القراءة ، وكيفية الاستعاذة عند الجمهور من القراء وغيرهم” أعوذ بالله من الشيطان الرجيم“؛ لتظافر الروايات على أنه صلى الله عليه وسلم كان يستعيذ كذلك. (تفسير الألوسي روح المعاني :7/ 465) قال العلامۃ شمس الدين أبو الخير ابن الجزري رحمہ اللہ تعالی: إذا قطع القارئ القراءة لعارض من سؤال، أو كلام يتعلق بالقراءة لم يعد الاستعاذة، وبخلاف ذلك ما إذا كان الكلام أجنبيا، ولو ردا للسلام، فإنه يستأنف الاستعاذة، وكذا لو كان القطع إعراضا عن القراءة كما تقدم، والله أعلم. وقيل: يستعيذ، واستدل له بما ذكره أصحابنا.(النشر في القراءات العشر :1/ 259) وفی الموسوعۃ الفقھیۃ: إذا قطع القارئ القراءة لعذر ، من سؤال أو كلام يتعلق بالقراءة ، لم يعد التعوذ لأنها قراءة واحدة . وفي ( مطالب أولي النهى ) : العزم على الإتمام بعد زوال العذر شرط لعدم الاستعاذة . أما إذا كان الكلام أجنبيا ، أو كان القطع قطع ترك وإهمال فإنه يعيد التعوذ ، قال النووي : يعتبر السكوت والكلام الطويل سببا للإعادة .( الموسوعة الفقهية الكويتية :4/ 9)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب