021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹیکس سے بچنے کے لیے تدبیر اختیار کرنا
62447جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام ان مسائل کے بارے میں : 1۔کیا ہم کسی کمپنی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے جعلی بل دے سکتے ہیں اور اس پر کچھ سروس چارجز لے سکتے ہیں،یہ حلال ہوگا یا حرام؟ 2۔ٹیکس چوری کرنا یا اپنی آمدنی کم بتانا قانون کے مطابق جرم ہے،کیا وہ آمدنی جو ہم نے کم بتائی ہے وہ ہمارے لیے حلال ہے یا حرام؟ 3۔چوری شدہ ٹیکس جو کم آمدنی بتانے کی وجہ سے بچا،کیا وہ ہمارے لیے حلال ہے یا حرام؟ 7۔ اگر میں پورا ٹیکس نہ دوں،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حکومت مجھ سے اس سے کہیں زیادہ ٹیکس لے رہی ہے INDIRECT TAX کی مد میں،کیا ان دونوں ٹیکس کی ایڈجسمنٹ کرنا صحیح ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

7،1،2،3۔شریعت کی طرف سے بیت المال کی آمدنی کے لیے درج ذیل ذرائع مقرر ہیں: زکاة،عشر،خراج،جزیہ،مال غنیمت ،مال فیئ اور گمشدہ اموال،ان کے علاوہ عام حالات میں حکومت کوعوام پر کوئی ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں ،زمانہ جاہلیت میں حکمران محض اپنی عیش وعشرت کی خاطر تاجروں سے ظالمانہ ٹیکس وصول کرتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ان کا خاتمہ فرمایا اور دورِ نبوی اور دورِ خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں سے زکاة اور عشر کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا۔ (شرح معانی الآثار:2/31) قرآن میں اس سے ممانعت آئی ہے،اور احادیث اس پر وعیدیں وارد ہیں،چنانچہ سورہ اعراف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ } [الأعراف: 85] ترجمہ:"اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا،انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ،تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے،لہذا ناپ تول پورا پورا کیا کرو اور جو چیزیں لوگوں کی ملکیت میں ہیں ان میں حق تلفی نہ کرو"۔ علامہ آلوسی اور دیگر مفسرین رحمہم اللہ نے اس آیت میں موجود"لاتبخسوا"کی ایک تفسیر "لاتمکسوا" سے کی ہے یعنی لوگوں سے ناحق ٹیکس مت وصول کرو،چونکہ حضرت شعیب علیہ السلام کے با اثر افراد عام لوگوں سے ہر چیز پر ناحق ٹیکس وصول کرکے ان کی حق تلفی کیا کرتےتھے ،اس لیے انہیں اس سے منع کیا گیا۔ (روح المعاني:4/413) احادیث مبارکہ میں بھی ناحق ٹیکس وصول کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہے: " لایدخل الجنة صاحب مکس" یعنی ٹیکس لینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس حدیث کو علامہ حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک"(1/562) میں نقل فرمایا ہے اور اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح حضرت عٕثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"حضرت داود علیہ السلام رات کے ایک متعین وقت میں اپنے گھر والوں کو جگا کر فرماتے:" اے آل داود!اٹھ کر نماز پڑھو،کیونکہ یہ ایسی گھڑی ہے جس میں اللہ تعالی جادوگر اور ٹیکس لینے والے کے علاوہ ہر ایک کی دعاء قبول فرماتے ہیں"۔ (مسنداحمد:26/208) لہذا عام حالات میں حکومت کے لیے مسلمان عوام پرزکاة اور عشر کے علاوہ اضافی ٹیکس مقرر کرنے کی اجازت نہیں ۔ البتہ اگر کسی اسلامی مملکت پر کوئی ایسا وقت آپڑے کہ قومی خزانے کی رقم عوامی ضروریات اور مصالح کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوجائے جیسا کہ آج کل حکومتوں کو بہت سی ایسی خدمات فراہم کرنی پڑتی ہیں جو پہلے حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہوا کرتی تھی، مثلا: ملک میں بجلی اور گیس کی فراہمی،نیز بہت سے ایسےشعبے جوپہلےاگر ہوتے بھی تھے،لیکن ان کے اخرجات اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھےجتنے آج کل بڑھ گئے ہیں ،مثلا :دفاع کے لیے جدید ہتھیاروں کی تیاری،پختہ سڑکوں کی تعمیر،مواصلات کے جدید ذرائع،ابلاغ کے وسائل،تعلیم اور صحت،ان میں سے ہر شعبے کے اخراجات بے پناہ ہیں اور ان میں سے بیشتر میں زکاة اور عشر کی رقوم بھی استعمال نہیں ہوسکتیں،لہذا اگر قومی خزانے میں موجود رقم ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو تو اس صورت میں فقہاء کرام نے درج ذیل شرائط کے ساتھ صرف بوقتِ ضرورت اور بقدرِ ضرورت ٹیکس عائد کرنے کی گنجائش دی ہے: 1۔حکومت کے مصارف کو اسراف وتبذیر سے پاک کیا جائے۔ 2۔ٹیکس اتنا ہی لگایا جائے جو ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہو،یہاں تک کہ قومی خزانے میں وسعت پیدا ہوجائے۔ 3۔ٹیکس عائدكرنے میں انصاف سے کام لیا جائے،یہ نہ ہو کہ کسی پر بہت زیادہ ٹیکس عائد ہو اور اسی قسم کے دوسرے شخص پر اس سے کم لگایا جائے۔ 4۔قومی خزانہ خالی ہو، یعنی اس میں موجود مال درپیش ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو۔ 5۔ٹیکس کی رقم ملک وملت کی حقیقی ضرورتوں اور مصالح پر خرچ کی جائے،بے جا ضائع نہ کی جائے۔ 6۔لوگوں پر ان کی حیثیت کے مطابق ٹیکس لگایا جائے،یعنی ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ نہ مقرر کی جائے جس کی ادائیگی لوگوں کے لیے بوجھ بن جائے۔ اگر حکومتی ٹیکسز میں درج بالا شرائط کی پاسداری کی جائے تو پورے ٹیکس کی ادائیگی لازم ہے اور اگر مذکورہ بالا شرائط کی پاسداری نہ کی جائے تو جتنا ٹیکس ناحق وصول کیا جارہا ہو اس سے بچنے کے لیے حیلہ اور کوئی مناسب تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے،باقی یہ بات کہ حکومت کتنی مقدار جائز وصول کررہی ہے اور کتنی ناجائز؟اس بارے میں ٹیکسیشن کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں،ہر فرد کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے ناجائز ٹیکس لیا جارہا ہے،ہاں اگر کوئی شخص محسوس کرتا ہے اور اسے ٹیکسیشن نظام کے بارے میں یقین ہے کہ اتنی مقدار غیر ضروری اور ناجائز ہے اور وہ اس مقدار کو حیلہ کرکے بچالیتا ہے تو اگرچہ آخرت میں شاید اس کا گناہ نہ ہو اور یہ بچائی گئی رقم حلال بھی ہو،لیکن موجودہ قوانینِ حکومت کی رو سے یہ جرم ہوگا اور اس کی سزا میں جان،مال،عزت کو خطرہ ہے تو اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (5/ 330): "(قوله: وكذا النوائب) جمع نائبة وفي الصحاح النائبة المصيبة واحدة نوائب الدهر اهـ، وفي اصطلاحهم ما يأتي. قال في الفتح قيل أراد بها ما يكون بحق كأجرة الحراس وكري النهر المشترك والمال الموظف لتجهيز الجيش وفداء الأسرى إذا لم يكن في بيت المال شيء وغيرهما مما هو بحق، فالكفالة به جائزة بالاتفاق؛ لأنها واجبة على كل مسلم موسر بإيجاب طاعة ولي الأمر فيما فيه مصلحة المسلمين ولم يلزم بيت المال أو لزمه ولا شيء فيه وإن أريد بها ما ليس بحق كالجبايات الموظفة على الناس في زماننا ببلاد فارس على الخياط والصباغ وغيرهم للسلطان في كل يوم أو شهر فإنها ظلم".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب