021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عرصہ 60 سال بعد میراث اورہبہ کا دعوی کرنا
62516 ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

دو بھا ئی سردارنظر محمد خان ( مرحوم ) اور سردارغلام علی خان ( مرحوم ) کے پوتوں میں ایک مشترکہ جدی قطعہ اراضی پر تنازعہ ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ سردار محمدخان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں: سردار نظرمحمد خان،خیرمحمدخان ،اخترخان ، فضل محمد خان نصیراحمدخان،بشیراحمد خا ن اورتین بیٹیاں۔ سردار نظرخان نے اپنے بھائی غلام علی خان کے ساتھ مشترکہ جایٔدادکو آدھا اپنے بٹیے (خیرمحمد خان) کو اور آدھا اپنے پوتوں یعنی خیرمحمد خان کے بیٹوں کے نام کردی گزشتہ 60سال سے یہ جایٔداد سردار محمد خان کے بیٹوں اور پوتوں کے قبضہ میں ہے۔ سردارنظر محمد خان کے بیٹوں اور پو توں نے اس جائیداد کے سرکاری کاغذات بھی اپنے نام بنوالیے ہیں جس سے بقیہ ورثاء (ور ثاء کی فہرست لف ہے) مکمل طور پر لاعلم تھے وہ اب تک یہی سمجھتے رہے کہ یہ قطعہ اراضی ہماری جدی مشترکہ جائیداد ہے ۔ فریق اول : سردار نظر محمد خان کے پوتوں پرمشتمل ہے ۔ فریق ثانی: سردار غلام علی خان کے پوتوں پرمشتمل ہے ۔ فریق اول : نےکچھ عرصہ قبل جائیداد کو فروخت کرنے کے حوالے سے اخبار میں اشتہار دیا۔ فریق ثانی: یہ تو مشترکہ جائیداد ہے، اس کو تقسیم کے بغیر نہیں بیچاجاسکتا۔ فریق اول : یہ جائیداد گزشتہ60 سالوں سے ہمارے قبضہ میں ہے آپ کے دادا (سردار غلام علی خان) نے یہ جائداد ہمارے دادا(سردار نظرمحمد خان) کو ہبہ کردی تھی اور اب60 سال گزرنے کے بعدتمہیں دعوی کا حق نہیں ہے۔ فریق ثانی : کا کہناہے کہ اگریہ جائیداد واقعتاً ہبہ کردی گئی تھی تو سردارغلام علی خان جائیدادہبہ کرنے کے بعد ایک طویل عرصے ( تقریبا چالیس برس ) تک زندہ رہے اس دوران نہ تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے ذکر کیا اور نہ ہی دوسرے ورثاء میں سے کسی کو کوئی خبر ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی تحریر ثبوت فریق اول کے پاس موجود ہے اس لیے یہ خالص فراڈ اور دھوکہ ہے باقی یہ بات کہ ساٹھ سال تک ہم خاموش رہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ فریق اول نے مشترکہ جائیداد کے کاغذات سرکار میں اپنے نام کرلیے ہیں علم ہونے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ہم خاموش نہیں رہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ ۱: طویل عرصہ گزرنے سے فریق ثانی کو دعوی کا حق ہے یا نہیں؟ کیا طویل عرصہ گزرنے سے کسی کا حق ساقط ہو جاتاہے ؟ 2: مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں فریق ثانی اس مشترکہ جایٔداد میں حق رکھتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(2،1) شرعی اصول کے تحت اولاً یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ فریقِ ثانی (سردار غلام علی کے پوتوں)نے دعوی کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی ہے ؟ اگر انہوں نے دید دانستہ بلاعذر دعوی میں اتنی تاخیرکی ہوتو ان کا دعوی ناقابلِ سماعت ہے ، اوراگر انہوں نے لاعلمی کی وجہ سے تاخیر کی ہو جیسے کہ سوال میں لکھاگیاہے یا خوف یا کسی اورشرعی عذر کی وجہ سے تاخیرکی ہوتو پھر ان کا دعوی صحیح ہے اورطویل عرصہ گذر نے سے ان کا حق ساقط نہیں ہوا"لان الحق لایسقط بتقادم الزمان کما فی الاشباہ"چونکہ فریق اول(سردار نظر محمدکے پوتے )ہبہ کا دعوی کرتےہیں، اس لیے ان پر لازم ہے کہ اپنے اس دعوی کے اثبات کے لیے ایسے دو معتمد گواہوں کو پیش کریں کہ جو مذکورہ ہبہ کے وقت بالغ ہوں ،اگر فریق اول گواہ پیش کرنے سے عاجز ہوجائے تو پھر فریق ثانی کواس طرح قسم دی جائے گی کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے دادا نے فریقِ اول کے داداکو زمین ہبہ کی تھی ؟ اگرفریق ثانی قسم اٹھالے تو اس کی قسم پر فیصلہ اس کے حق میں کیا جائے گا اوراگر وہ قسم سے انکار کرے تو پھر فیصلہ فریقِ اول کے حق میں کیاجائے گا۔
حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 4) ثم اعلم أن عدم سماع الدعوى بعد مضي ثلاثين سنة أو بعد الاطلاع على التصرف ليس مبنيا على بطلان الحق في ذلك وإنما هو مجرد منع للقضاة عن سماع الدعوى مع بقاء الحق لصاحبه حتى لو أقر به الخصم يلزمه ولو كان ذلك حكما ببطلانه لم يلزمه ويدل على ما قلناه تعليلهم للمنع بقطع التزوير والحيل كما مر فلا يرد ما في قضاء الأشباه من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان.ثم رأيت التصريح بما قلناه في البحر قبيل فصل دفع الدعوى وليس أيضا مبنيا على المنع السلطاني كما في المسألة الآتية بل هو حكم اجتهادي نص عليه الفقهاء كما رأيت فاغتنم تحرير هذه المسألة فإنه من مفردات هذا الكتاب والحمد لله المنعم الوهاب. (وکذا فی قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار (8/ 98) جامع الفصولين (1/ 114) لو وقع الدعوى على فعل الغير من كل وجه يحلف على العلم حتى لو ادعى على وارث أن أباك أتلفه أو سرقه أو غصبه مني يحلف على العلم وهذا مذهبنا قال "مح": هذا الأصل مستقيم أن التحليف على فعل الغير يكون على العلم إلا في الرد بالعيب يعني أن المشتري لو ادعى أنا القن سارق أو آبق وأثبت إباقه أو سرقته في يد نفسه وادعى إباقة أو سرقته في يد البائع يحلف البائع على البتات بالله ما أبق أو سرق في يدك وهذا تحليف على فعل الغير وهذا أن البائع ضمن تسليم المبيع سلمياً فالتحليف يرجع إلى ما ضمن بنفسه فيكون على البتات.وزاد البزدوي على هذا الأصل حرفاً وهو أن التحليف على فعل نفسه على البتات وعلى فعل غيره على العلم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب