62488 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
یہ بات ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کے لئے دین کی بنیادی واقفیت ضروری ہے، پہلے بچے پانچ چھ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر میں اسکول میں داخل کئے جاتے تھے، اور ابتدائی جماعتوں میں تعلیم کابوجھ بھی کم ہوا کرتا تھا؛ اس لئے گھر میں بچوں کی بنیادی تعلیم ہوجایاکرتی تھی، خود ماں باپ میں بھی اتنی صلاحیت ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھالیں؛ لیکن مادیت کے غلبہ اور مغربی نظام تعلیم نے اس اہم فريضہ سے نہ صرف لوگوں کو غافل کردیا ہے؛ بلکہ اب اس کی ضرورت و اہمیت بھی دلوں سے رخصت ہوگئی ہے، اس پس منظر میں ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی ماحول کے ساتھ عصری و تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان میں ضروری حد تک بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے اسکولوں میں کس حد تک دینی تعلیم شرعا ضروری ہے؛ تاکہ طلبہ و طالبات بقدر واجب دینی تعلیم حاصل کرلیں، اور دوسرے مضامین کی تعلیم بھی متاثر نہ ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلبہ و طالبات کو کم از کم اتنی دینی تعلیم دینا ضروری ہے جس سے وہ اسلام کے بنیادی عقائد اور روز مرہ کے ضروری مسائل مثلاً: حلال وحرام، پاکی وناپاکی ، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ سے متعلق بنیادی احکام سیکھ جائیں۔ اور بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے علمائے کرام کی مشاورت سے ضروری مسائل پر مشتمل ایک جامع اور مختصر نصاب ترتیب دے دیا جائےجس میں وہ تمام ضروری مسائل واحکام جمع کر دیے جائیں جن سے ایک مسلمان کا واقف ہونا ضروری ہے۔اور پھر اس کو اسکولز میں داخلِ نصاب کر لیا جائے۔
حوالہ جات
..........
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |