62489 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
اساتذہ کے تقرر میں مرد معلمین اور خواتین معلمات کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے، بالغ لڑکے اور بالغ طالبات کے لئے جنس مخالف میں سے ٹیچر مقرر کرنے کے متعلق شرعا ًکیا حکم ہوگا، یہ مسئلہ اس صورت میں مزید اہم بن جاتا ہے جب خاتون معلمہ کم تنخواہ پر مہیا ہو اور اسکول کی مالی حالت کا تقاضا ہو کہ وہ ان کی خدمت سے استفادہ کرے تو کیا ایسی صورت میں مخالف جنس ٹیچر کا تقرر درست ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
لڑکی کا بالغ لڑکوں کو یا مرد استاذ کا بالغ لڑکیوں کو بغیر پردے کے تعلیم دینا جائز نہیں، البتہ اگر طلبہ اور طالبات دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام ہو تو پردے کا اہتمام کرتے ہوئے مرد کے لیے بالغ لڑکیوں کو تعلیم دینے کی گنجائش ہے۔لیکن لڑکی کا بالغ لڑکوں کو تعلیم دینے کا عمل نسبتاً زیادہ سنگین اور فتنے کا باعث ہے، لہذا اس سے بچنے کا بھر پور اہتمام کرنا ضروری ہے، تاہم جہاں کوئی اور صورت نہ ممکن ہو اور شدید مجبوری کی صورت ہو تو پردے کی مکمل رعایت اور آواز کی لچک و خوبصورتی پیدا نہ کرنے کی شرط کے ساتھ ا س کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
عصری تعلیمی اداروں میں چونکہ شرعی حدود اور پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، اس لیے خاتون کا تقرر بالغ طلباء کے لیے اور مرد کا تقرر بالغ طالبات کے لیے کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 481):
حدَّثنا محمدُ بنُ كثيرٍ، أخبرنا سفيانُ، حدثني يونسُ بن عُبيد، عن عمرو بن سعيد، عن أبي زرعة عن جرير، قال: سألت رسولَ الله - صلَّى الله عليه وسلم - عن نظرةِ الفَجْأة، فقال: "اصْرِف بَصَرَكَ"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق (1/ 285):
ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ.
محمدنعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
18/جمادی الاخری 1439ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |