03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری تعلیمی افسران کو رشوت دینے کا حکم
62490جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

 اسکولوں کی تعلیمی اور دوسری سرگرمیوں کے معائنہ کے لئے محکمہ تعلیم کی طرف سے وقتا فوقتا معائنہ کرنے والے آتے رہتے ہیں، اور وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کلاس روم کی وسعت، باتھ روم، بچوں کے لئے کھیل کی سہولتیں، یونیفارم، فیس کا ڈھانچہ اور اسکول کی طرف سے دی جانے والی دیگر سہولیات کا معائنہ کرکے حکومت کی طرف سے منظوری کو برقرار رکھنے یا منسوخ کرنے کی تجویز دیتے ہیں، چونکہ بدقسمتی سے آج کل ہر میدان میں رشوت کا لین دین ایک معمول سا بن گیا ہے؛ اس لئے یہ رشوت کے طالب ہوتے ہیں، اور نہ دی جائے تو معمولی بہانوں سے منظوری کو منسوخ کرنے کی تجویز پیش کردیتے ہیں، کیا ایسی صورت میں ان کو رشوت دے کر اسکول کو بچایاجاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً اسکول گرانٹ (حکومتی عطیہ) کا مستحق ہو اور رشوت دیے بغیر معائنہ کرنے والےلوگ رقم کی منظوری نہ دیں تو اس صورت میں اولاً ایسے لوگوں کے خلاف افسرانِ بالا کو شکایت کرنی چاہیے، تاکہ معائنہ کرنے والے لوگ  اس حرام کام سے بازآئیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے  ان کے خلاف کاروائی کرنا مشکل ہو یا کروائی کرنے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں تو پھر مجبوری کی صورت میں اپنا حق وصول کرنے کے لیے مناسب حد تک ان کو رشوت دینے کی گنجائش ہے، لیکن  معائنہ کرنے والے کے لیے رشوت لینا  بالکل  جائز نہیں، اس کے لیے یہ رقم بدستور حرام اور ناجائز رہے گی۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ مذکورہ بالا حکم گرانٹ کا حقیقتاً مستحق ہونے کی صورت میں ہے، استحقاق کے بغیر رشوت دے کر گرانٹ لینا ہرگز جائز نہیں، اس میں دو گناہ لازم آتے ہیں: ایک رشوت دینے کا اور دوسرا  سرکاری خزانے سے ناجائز مال لینے کا۔

حوالہ جات

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4 / 115):

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال : لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم الراشي و المرتشي هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه (واقره الذهبي ورواه ابوداودوالترمذي وابن ماجةوابن حبان واحمدوابن ابي شيبة)

المعجم الكبير للطبراني - (20 / 99):

عن عبد الله بن عمرو , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:"الراشي والمرتشي في النار"۔

حاشية ابن عابدين- (5 / 362):

الرابع ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب اه ما في الفتح ملخص وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك۔

حاشية ابن عابدين (5 / 72):

لو اضطر إلى دفع الرشوة لإحياء حقه جاز له الدفع وحرم على القابض۔

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

18/جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب