021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"میں تمہیں طلاق” کہنے کا حکم
62491طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میں ہوش وحواس میں یہ بیان دے رہی ہوں کہ میری شادی کوڈیڑھ سےدوسال ہوئےتھے،جھگڑےکےدوران میرے شوہرنےکہاتھا "میں نےتمہیں طلاق" جیسےہی یہ الفاظ کہےمیری ساس نےمیرےشوہرکےمنہ پرہاتھ رکھ کرخاموش کرادیاتھا۔اس کےبعدہم ساتھ رہتےرہےاوردوچاردن میں ہم نےرجوع کرلیاتھا۔تقریبادوسال بعدپھرجھگڑے کےدوران ہم دونوں کمرےمیں اکیلےتھےکوئی تیسراشخص موجودنہیں تھامیرےشوہرنےکہا "میں تجھےطلاق دیتاہوں" پھر کہا "میں تجھےطلاق" صرف اتنا کہہ کرخاموش ہوگئے،جملہ مکمل نہیں کیا یہ سوچ کر کہ میں کیابول رہاہوں؟ اس وقت میری دوسری اولادہونےوالی تھی تقریبامجھےتیسرےیاچوتھےمہینےکاحمل تھا۔اس واقعے کےبعدمیرےدیورنےکسی سےمعلوم کروایاکہ یہ طلاق ہوگئی یانہیں، تو انہوں نےمجھےبتایاکہ حمل کےدوران طلاق نہیں ہوتی،انہوں نےمجھےقرآن کاترجمہ بھی پڑھ کربتایاتھااوردو بندوں سےتسلی بھی دلوائی تھی کہ جب تک کوئی گواہ نہ ہوطلاق نہیں ہوتی۔اس کےبعدہم ساتھ رہتےرہےاوریہ بات ساس،دیور اورشوہرکےعلاوہ کسی کوبھی معلوم نہیں تھی،اس بات کوبھی تین سال گزرگئےہیں،اب دوبارہ جھگڑے کےدوران میں نےیہ بات گھروالوں کوبتادی۔ مذکورہ بالاتفصیل کےبعدمیری رہنمائی کی جائےکہ شریعت اس بارےمیں کیاکہتی ہے؟ نیز صریح طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران خاوند نے رجوع کر لیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں شخص مذکور کے الفاظ " میں تمہیں طلاق" اور" میں تجھے طلاق" نامکمل جملے ہیں، لہذا اگر شخص مذکور نے ان الفاظ کے ساتھ زبان سے "دیتا ہوں" یا "دی" وغیرہ کے الفاظ (نہ آہستہ آواز سے اور نہ ہی بلند آواز سے) نہیں کہے تھے تو اس صورت میں ان الفاظ سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 البتہ مذکورہ شخص کے الفاظ " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے اور چونکہ سوال میں تصریح کے مطابق شخص مذکور نے عدت میں رجوع کر لیا تھا اس لیے فریقین کے درمیان نکاح بدستور قائم رہا۔ البتہ اب شخص مذکور کو صرف دوطلاقوں کا حق  باقی ہے، لہذا آئندہ کے لیے طلاق کے معاملے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ طلاق کے لیے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ بغیر گواہوں کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح حالت حمل میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں گزشتہ نامکمل جملے سے طلاق نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ حالت حمل تھی، بلکہ نامکمل جملہ کوئی حکم نہیں دیتا، اگر جملہ مکمل ہوتا تو طلاق ہو جاتی۔

حوالہ جات
.....

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

18/جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب