021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جشنِ آزادی منانے اور جھنڈا لہرانے کا حکم
62780جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

آزادی کے موقع پر جشن منانے،جھنڈے اور ترانے کے احترام کا جواب فتوے کی شکل میں دیں تو نوازش ہو گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آج کل چونکہ مسلم حکومتوں میں بھی آزادی کے دن تقریبات وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا  ہے،جس کی ایک وجہ بین الاقوامی دباؤ بھی ہے،  خصوصا پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ انتہائی سنگین  ہیں، اس لیےحکومتی سطح پر اس  دن کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، تقریبات کا اہتمام کرنے کو آزادی کی نعمت کی شکرگزاری اور قدر دانی خیال کیا جاتا ہے،  قوم کے دل و دماغ میں وطن سے محبت اجاگر کرنے، مشکل حالات میں قومی یکجہتی  اور اس کی حفاظت کا جذبہ و ولولہ پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، نیز یہ دن منانے والوں کو محبِ وطن اور نہ منانے والوں کو ملک  دشمن تصور کیا جاتا ہے اور ان کو طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اگرچہ وہ ملک کے وفا دار اور ملکی مفاد کے لیے کتنے ہی مخلص ہوں، اسی وجہ سے آئے دن مدارس کے خلاف طرح طرح کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔

نیز یوم آزادی کی تقریب کو چونکہ عبادت سمجھ کر نہیں کیا جاتا، اس لیے اس  کو عید کے تہوار کے مشابہ قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ عید الفطر اور عید الاضحی عبادت کے طور پر منائے جانے والے مذہبی تہوار ہیں، جبکہ یہاں ایسا نہیں۔ اس لیے حالات كے تقاضا کے پیشِ نظر اس دن غیر شرعی امور سے بچتے ہوئے کسی تقریب کا اہتمام کر لیا جائے، جس میں اس وطن کے حصول پر اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہارِشکر کیا جائے اور ہمارے اکابر اور آباؤ اجداد نے جس مقصد کی خاطر قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا تھا اس کے حصول کا عزم کیا جائے اور ہر طبقہ اس کے لیے جو کردار ادا کر سکتا ہے، وہ کردار ادا کرنے کا پختہ عزم کرے۔ تو اس طرح آزادی کے دن اسراف سے بچتے ہوئے تقریب کا اہتمام کرنے کی گنجائش ہے، خصوصاً جبکہ اس کو عبادت سمجھ نہیں کیا جاتا اور قانوناً بھی حکومتی اداروں کو اس تقریب کے اہتمام کا پابند بنایا جاتا ہے لہذا فی نفسہ جشنِ آزادی کی تقریب کا اہتمام کرنا جائز ہے۔

رہی یہ بات  کہ جشنِ آزادی کی تقریب کا اہتمام  غیر مسلم لوگوں کا طریقہ ہے اور غیر مسلموں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ کہ اب یہ صرف غیر مسلموں کا طریقہ نہیں رہا، بلکہ آج کل دنیا کے تقریباً  تمام مسلم ممالک میں یہ طریقہ رائج ہو چکا ہے اور غیرمسلم قوم کا  کوئی طریقہ  اور عادت (بشرطیکہ وہ طریقہ غیرمسلم قوم کاشعار اور مذہبی طریقہ نہ ہو۔) جب مسلم قوم میں بھی عام اور معروف ہو جائے تو مشابہت ختم ہو جاتی ہے اور وہ کام جائز ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کفار کے لباس سے متعلق ایک اصول بیان کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"میں اس باب میں یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ جہاں یہ لباس قومی (کسی قوم کے ساتھ خاص) ہے، وہاں اس کا پہننا تشبہ بقوم میں داخل ہوتا ہے اور جہاں ملکی ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب پہنتے ہوں وہاں کچھ حرج نہیں۔"     (  امداد الفتاوی: ج: 4ص: 268)

لہذا تشبہ بالکفار کی وجہ سے جشن آزادی کی تقریب کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ آج کل چونکہ آزادی کی تقریبات میں بہت سے منکرات کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے، اس لیے آزادی کی تقریب میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

  1. تقریبات پر وقار طریقے سے منائی جائیں، زیبائش و آرائش میں اعتدال سے کام لیا جائے، فضول خرچی اور اسراف سے کام نہ لیا جائے، ايك رپورٹ كے مطابق  گزشتہ  سال اس دن جشنِ آزادی کی تقریبات وغیرہ  میں قوم کا ۲۵ کروڑ  روپیہ  خرچ ہوا، لہذا اس طرح کی فضول خرچی کی بجائے اعتدال  کا اہتمام کیا جائے۔
  2. موسیقی ، ناچ اور گانے بجانے وغیرہ  منکرات سے مکمل اجتناب کیا جائے، کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں۔
  3.  خواتین وحضرات اور لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تقریبات پر پابندی ہو، خواتین کی تقریبات الگ اور محفوظ مقامات پر ہوں۔
  4.  اپنے چہروں اور جسم  پر پاکستانی پرچم کے مختلف رنگوں اور مختلف قسم کے ڈیزائن بنا کر شکلیں تبدیل کی نہ جائیں، بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہ انگلینڈ اور امریکہ وغیرہ میں غیرمسلم لوگوں کا طریقہ ہے، لہذا اس سے بچا جائے۔
  5. جھنڈے کے آگے سر جھکانے سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی چیز کے سامنے سر جھکانے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔
  6. اس دن تقریب کا اہتمام نہ کرنے والے کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، کیونکہ یہ صرف ایک جائز کام ہے اور جائز کام کے چھوڑنے پر کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔
  7. بعض جگہوں پر رات کو آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو شرعاً ناجائز ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

مذکورہ بالا امور سے بچتے ہوئے اس تقریب میں شرعاً مباح اور جائز  امور مثلاً: آزادی کے موضوع پر تقاریر اور نغمے پڑھنا،جھنڈا لہرانا، قومی ترانا  پڑھنا  اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا جائز ہے۔ اسی طرح جھنڈے کو سلامی دینا ایک فوجی طریقہ ہے، جو احتراماً کیا جاتا ہے اور اسلامی ملک کے پرچم کی حیثیت سے اس کا احترام جائز ہے، چنانچہ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ جھنڈے کو سلامی دینے  سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"جھنڈے کی سلامی مسلم لیگ بھی کرتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے، یہ ایک قومی عمل ہے، اس میں اصلاح ہو سکتی ہے، مگر اس کو مطلقا مشرکانہ عمل قرار دینا درست نہیں۔" 

( کفایت المفتی: ج:9،ص: 378)

نیز جھنڈے کا احترام لہرانے اور نیچے گرنے سے بچانے  کی حد تک صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے واقعات سے بھی ثابت ہے، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر ہر لشکر کے امیر کے ہاتھ میں جھنڈا تھا اور ہر لشکر اپنے  جھنڈے کو عزت اور احترام کے ساتھ  بلند کیے ہوئے مکہ میں داخل ہو رہا تھا۔ اسی طرح غزوات میں جھنڈے کو گرنے سے بچایا جاتا تھا۔ٍ

اسی طرح قومی ترانہ پڑھتے وقت ادب اور احترام کے ساتھ ہاتھ چھوڑ کر  کھڑے ہو کر اس کو سننا  بھی عبادت اور باعثِ ثواب سمجھ کرنہیں کیا جاتا، نیز آج کل چونکہ مسلم قوم اور  مسلم حکومتیں بھی قومی ترانے کا احترام کرنے لگی  ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً دنیا میں عام ہو چکا ہے، لہذا اگر کوئی شخص قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔اسی طرح اگر قومی ترانہ پڑھتے وقت کھڑا ہونا قانوناً ضروری ہو تو بھی مجبوراً کھڑے ہونے کی گنجائش ہے، اس  سے متعلق دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

" اگر قومی ترانہ کا مضمون درست ہو اور اس کے پڑھنے میں قانوناً کھڑا ہونا لازم ہو تو کھڑے ہوکر پڑھنے کی گنجائش ہے۔"

(فتوی نمبر: 741=569- 4/1431)

  جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جھنڈے کو سلامی دینا اور قومی ترانہ پڑھنا شریعت سے ثابت نہیں تو اس کا  جواب  یہ ہے کہ شرعاً  اس چیز کا ثبوت ضروری ہوتا ہے جس کو دین یعنی عبادت سمجھ کر کیا جائے، جو چیز عبادت سمجھ کر نہ کی جائے، بلکہ ایک  مباح  کام کے طور پر اس کو انجام دیا  جائے تو اس کا شریعت سے ثابت ہونا  ضروری نہیں، آج کے دور میں اس کی ہزاروں نظائر موجود ہیں، مثلا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گھوڑوں اور اونٹوں وغیرہ پر سفر ہوتا تھا، جبکہ آج بسوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہاز پر کیا جاتا ہے، اب اگر کوئی شخص اس کے لیے ثبوت مانگے تو یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ ان چیزوں پر سفر عبادت سمجھ کر نہیں کیا جاتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے آزادی کی نعمت پر اظہار شکر اور حالات کے تقاضا کےپیش نظر اعتدال کے ساتھ جشن آزادی کی تقریب کا اہتمام کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات

يوم فتح مكة لواء سعد بن عبادة ، فدخل الزبير مكة بلوائين۔

الشرح الممتع على زاد المستقنع (5/ 30):

القول الراجح الذي لا شك فيه أن التشبه بالكفار حرام، ولكن لا بد أن نعرف ما هو التشبه؟ وهل يشترط قصد التشبه؟ فالجواب: أن التشبه أن يأتي الإنسان بما هو من خصائصهم بحيث لا يشاركهم فيه أحد كلباس لا يلبسه إلا الكفار، فإن كان اللباس شائعاً بين الكفار والمسلمين فليس تشبهاً، لكن إذا كان لباساً خاصاً بالكفار، سواء كان يرمز إلى شيء ديني كلباس الرهبان، أو إلى شيء عادي لكن من رآه قال: هذا كافر بناء على لباسه فهذا حرام.

وهل يشترط قصد التشبه أو لا؟ الجواب: قد يقول قائل: إنه يشترط قصد التشبه؛ لأنه قال: «من تشبه» وتفعّل تقتضي فعلاً وقصداً، ولكن من نظر إلى العلة عرف أنه متى حصل التشابه ثبت الحكم، ولهذا نص شيخ الإسلام ـ رحمه الله ـ على أنه متى حصلت المشابهة، ولو بغير قصد، ثبت الحكم؛ وذلك لأن العلة لا تختلف بالقصد وعدمه، فالعلة أن من رأى هذا الرجل قال: هذا كافر، وهذا لا يشترط  فيه القصد.

 

لكن لو فرض أن الإنسان في بلد ليس فيه من الكفار من يلبس هذا اللباس، وهو لا يعرف عن لباس الكفار في بلادهم، ولبس لباساً يشبه لباس الكفار في بلادهم، وهو لم يقصد، فهنا قد نقول: إنه لا تشبه؛ لأن العلة قد زالت تماماً.

فإن قال قائل: على قولكم حرموا قيادة الطائرات التي تحمل الصواريخ، وما أشبه ذلك؛ لأن الذين يقودونها كفار؟

فالجواب: أن هذه ليست من أزيائهم التي يتحلون بها، ويتخذونها شعاراً لهم، فهذه آلة يقودها الكفار، ويقودها المسلمون، والصحابة ـ رضي الله عنهم ـ لما فتحوا البلاد ركبوا السفن التي يصنعها الكفار، والتي هم بها أدرى، ولم يقولوا: إذا ركبنا السفينة صرنا متشبهين.

    محمدنعمان خالد

      دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

      22/جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب