021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پیشگی اطلاع نہ دینے کی صورت میں ایک ماہ کی تنخواہ کاٹنے کا حکم
62541اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

ایچ آر کمیٹی ٫٫٫٫٫ اپنے اجیر کے ساتھ مندرجہ ذیل معاہدہ  کرتی ہے :

1: نوٹس پیریڈ: آزمائشی مدت (Probation)کے دوران فریقین میں سے کوئی بھی فریق بغیر وجہ بتائے فوری طور پر اس معاہدے سے الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن مستقل ہونے  کے بعد علیحدگی کے خواہش مند فریق پر لازم ہے کہ معاہدے سے علیحدگی کی تحریری اطلاع(Notice) کم ازکم ایک ماہ قبل دینا ضروری ہے۔بصورت دیگر خواہش مند فریق کو معاہدے کے تحت واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے مشاہرے اور الاؤنسز کی مجموعی رقم فریق مخالف کو ادا کرنا ہوگی۔

اس سے متعلق پوچھنا یہ ہے کہ :

کیا فسخ معاہدہ کی ایک ماہ قبل اطلاع دینا ضروری ہے ؟ اور عدم اطلاع پر رقم کاٹی جاسکتی ہے یا نہیں ؟۔ اگر نہیں تو اس کی متبادل صورت کیا ہے؟ کیوں کہ جب کسی اجیر کا دوسری جگہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو وہ آخری وقت میں اطلاع دے کر  چلا جاتا ہے اور اس سے ادارے کے کاموں کا کافی حرج ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ملازمت کے  معاہدے میں یہ شرط لگانا کہ ملازم ملازمت چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دے گا، ورنہ اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹی جائے گی، شرعاً شرطِ فاسد اور ناجائزہے، کیونکہ یہ مالی جرمانہ ہے،جس کی شرعاً اجازت نہیں۔چنانچہ حضرت  مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

سوال: کیا یہ شرط کہ اگر نوکری چھوڑنے سے چند روز پہلے اطلاع نہ دو گے تو اس قدر جرمانہ دینا ہو گا متمّماتِ عقد سے ہے اور لازم ہے؟

جواب: اجارہ شرطِ فاسد سے فاسد ہو جاتا ہے اور یہ شرط خلافِ مقتضائے عقد ہے، لہذا عقد کو فاسد کر دیوےگی، اس کا ذکر نہ کرنا چاہیے، "تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضی العقد"،درمختار۔اور یہ شرط ظاہر ہے کہ اجیر کو مضر اورمستاجرکو نافع اور عقد کے خلاف ہے۔

لہذا  اگر ملازمت کے معاہدہ کے وقت یہ شرط لگا دی گئی تو ملازمت کا معاہدہ شرعاًًً درست نہیں ہو گا اور اس معاہدے کو ختم کرنا فریقین کے ذمہ لازم ہو گا۔نیز ایسی صورت میں ملازم کو طے شدہ اجرت نہیں ملے گی، بلکہ ملازم اجرت مثل(اس جیسا کام کرنے پر عام طور پر معاشرے میں جو اجرت رائج ہو) کا مستحق ہو گا۔

اس کی جائز صورت یہ ہے کہ ادارہ عقد کے وقت ملازم سے نذر کی شق پر دستخط کروائے، جس میں یہ طے کیا جائے کہ اگر ملازم نے پیشگی اطلاع نہ دی تو وہ ایک ماہ کی تنخواہ طلباء (مستحق زکوۃ) پر صدقہ کرے گا اور وہ تنخواہ ایچ آر کمیٹی کو وصول کرکے صدقہ کرنے کا اختیار ہوگا، اس شق پر دستخط کرنے کے بعد اگر ملازم  ایک ماہ پیشگی اطلاع نہ دے تو ایچ آر کمیٹی اس کی ایک ماہ کی تنخواہ روک کرطلباء پر خرچ کرنے کی مجاز ہو گی۔اگر ملازم اپنی مکمل تنخواہ وصول کر چکا ہو تو اس کے ذمہ شرعاً لازم ہو گا کہ وہ اپنی نذر پوری کرنے کے لیے ایک ماہ کی تنخواہ مستحق  زکوۃ افراد پر صدقہ کرے اور معاہدے کے تحت دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اتنی رقم طلباء پر صدقہ کرنے کے لیے ایچ کمیٹی کے حوالے کرے۔

حوالہ جات

تحرير الكلام في مسائل الالتزام (ص: 163) للعلامة أبوعبدالله محمد حطاب، دار الغرب الإسلامی،  بیروت ،لبنان:

 أما إذا التزم أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فعليه كذا وكذا لفلان أو صدقة للمساكين فهذا المعقود له هذا الباب فالمشهور أنه لا يقضى به كما تقدم وقال ابن دينار: يقضى به۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 437):

 ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فيصح لانعقاد السبب قبله، وكذا يظهر منه أنه لا يتعين فيه المكان والدرهم والفقير لأن التعليق إنما أثر في تأخير السببية فقط فامتنع التعجيل، أما المكان والدرهم والفقير فهي باقية على الأصل من عدم التعيين لعدم تأثير التعليق في شيء منها۔

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

22/جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب