021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متفرق کاموں کے لیے ملازم رکھنے کا حکم
62542اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

بعض مرتبہ مؤظف سے ان کے متعین وقت اور وظیفہ سے الگ ایک معاہدہ کیا جاتا ہے۔ جس میں مؤظف کے ذمہ مختلف کام مثلا ریسرچ پریزنٹیشن وغیرہ لگائی جاتی ہے۔اس معاہدہ میں انہیں ماہانہ متعین (طے شدہ)رقم دی جاتی ہے۔البتہ کام کا حجم متعین نہیں ہوتا ، کسی ماہ کوئی کام نہیں آتا اور کسی ماہ زیادہ کام آتا ہے۔اسی طرح کبھی کام مختصر وقت کا ہوتا ہے اور کبھی طویل۔ اور انہیں وقت اور جگہ کا پابند نہیں کیا جاتا، البتہ ماہانہ وظیفہ ہرماہ دیا جاتا ہےچاہے کام بالکل نہ ہو۔کیا یہ صورت شرعا درست ہے یا  اسےکیسے درست کیا جاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت اجیر مشترک کی ہے اور یہ صورت دو وجہ سے درست نہیں: اول یہ کہ اجیر مشترک کی اجرت کام کی بنیاد پر ہوتی ہے، جبکہ یہاں وقت کی بنیاد پر اجرت طے کی گئی ہے، دوم یہ کہ کام کی مقدار اور نوع متعین نہ ہونے  کی وجہ سے اس میں غرر پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اجارہ فاسد ہے اور اجارہ کے اس معاملے کو ختم کرنا ضروری ہے، نیز ملازم کو گزشتہ مدت میں کیے گئے کام کی اجرت مثل ملے گی، نہ کہ متعین اجرت۔

اس کی جائز صورت یہ  ہے کہ اصل کام کے لیے جو وقت متعین ہے اس کے سوا دوسرے وقت میں کام لیا جائے اور  کام کی انواع متعین کر لی جائیں، جیسے: ریسرچ کرنا، پریزنٹیشنز تیار کرنا  اور سفر پر جانا وغیرہ۔ پھر ہر نوع کی اجرت کا ایک فارمولا طے کر لیا جائے مثلا: ریسرچ کے کام کے پچاس  صفحات پر اتنے روپے، فی پریزنٹیشن تیار کرنے پر اتنے روپے اورسفرپر جانے کی صورت میں فی  گھنٹہ اتنے روپے دیے جائیں گے وغیرہ۔

 دوسری صورت یہ کہ دوسرے معاہدے کے لیے بھی الگ سے کام کا ایک وقت (جو پہلے معاہدے کے وقت کے علاوہ ہو) متعین کر دیا جائے، اس وقت کے دوران  ملازم کام کرنے کا  ذمہ دار  ہو گا، پھر  اس وقت میں جو بھی کام سپرد کیا جائے وہ  اس کو کرنے کا پابند ہو گا۔ اس صورت میں ملازم اجیر خاص ہو گا اور اس کی تنخواہ وقت کے اعتبار سے ماہانہ طے کی جا سکتی ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 179):

وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فضروب: منها: أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع من المنازعة، فإن كان مجهولا ينظر إن كانت تلك الجهالة مفضية إلى المنازعة تمنع صحة العقد، وإلا فلا؛ لأن الجهالة المفضية إلى المنازعة تمنع من التسليم والتسلم فلا يحصل المقصود من العقد فكان العقد عبثا لخلوه عن العاقبة الحميدة. وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة يوجد التسليم والتسلم فيحصل المقصود۔

الفتاوى الهندية (4/ 411):

وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما في حق الأجير الخاص فلا يشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته وإنما يشترط بيان المدة فقط۔

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

22/جمادی الاخری 1439ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب