کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم اپنی ذاتی گاڑی میں سفر کررہے تھے کہ راستہ میں عصر کی نماز کا وقت ہوا،تو ہم ایسی جگہ نماز کے لیے رکے جو صحرائی علاقہ تھا،وہاں آبادی نہیں تھی،ہم نے ایک طرف قبلہ کا گمان کرکے نماز پڑھ لی۔نما زسے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دور جاکر پتہ چلا کہ اس علاقہ کا قبلہ دوسری طرف ہے،تو کیا وہ نماز درست ہوئی جبکہ ہم نے اپنی طرف سے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سمت قبلہ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہ ہو اور نمازی نے سوچ سمجھ کر کسی ایک جانب کو قبلہ سمجھ کر اس طرف نماز پڑھ لی تو نماز درست ہوتی ہے،خواہ رخ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو۔لہذا آپ کی مذکورہ نماز درست ہے،دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال الإمام فخر الدین الزیلعی رحمہ اللہ تعالی:" قال رحمه الله :(ومن اشتبهت عليه القبلة تحرى)؛ لما روي عن عامر بن ربيعة أنه قال: "كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ليلة مظلمة، فلم ندر أين القبلة؟ فصلى كل رجل منا على حياله، فلما أصبحنا ذكرنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فنزلت"فأينما تولوا فثم وجه الله"...قال رحمه الله :(وإن أخطأ لم يعد)."
(تبیین الحقائق:1/101،المطبعة الكبرى الأميرية ، القاهرة)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:"(ويتحرى) هو بذل المجهود لنيل المقصود (عاجز عن معرفة القبلة) بما مر. (فإن ظهر خطؤه لم يعد)؛ لما مر." (الدرالمختار:1/433،دار الفکر،بیروت)