021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میچ کے ٹکٹ کو بلیک بیچنا
62834 خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

میچ کی بلیک ٹکٹ بیچنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ مثلاً ٹکٹ کی قیمت 30 روپے ہے، جب کاونٹر سے ٹکٹ دینا بند کردیا جاتا ہے تو جو 30 کی ٹکٹیں خریدی ہوئی ہیں ہوں وہ 80 میں فروخت کی جاتی ہیں۔ کیا یہ زائد رقم لینا درست ہے؟ وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ ان ٹکٹوں پر لینے والے کا نام لکھا ہوا نہیں ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میچ کے ٹکٹ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن پر لینے والے کا نام لکھا ہوا نہیں ہوتا، جیساکہ سوال میں مذکور ہے۔ دوسرے وہ جن پر باقاعدہ خریدنے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ چونکہ قانوناً ٹکٹ کو بلیک میں بیچنا ممنوع ہے اس لیے ان دونوں قسم کے ٹکٹوں کو بلیک میں بیچنا اور اس پر نفع کمانا شرعاً جائز نہیں۔ دوسرے قسم کے ٹکٹوں کے آگے بیچنے کے ناجائز ہونے کی (قانونی ممانعت کے علاوہ) ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر خریدنے والے کا نام لکھا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ادارہ اسی شخص کے ساتھ معاملہ کرنے پر راضی ہے، لہٰذا اس کے لیے جائز نہیں کہ ادارے کی اجازت کے بغیر اس ٹکٹ کو آگے بیچے اور اس پر نفع کمائے۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4/ 263): وتجب طاعة الإمام عادلاً كان أو جائراً إذا لم يخالف الشرع. تکملة فتح الملهم (1/350): 4- الحقوق التی تتعلق بإجازات مکتوبة: والنوع الرابع من الحقوق عبارة عن حق الاستفادۃ بإجازات کتبها المجیز علی ورقة، فثبتت الإجازة لکل من یحملها، مثل طوابع البرید فإنها عبارة عن استعمال البرید، ومثل تذاکر القطار والطائرة والأتویسات، فإنها عبارة عن إجازة استعمالها لکل من یحملها، و لم أر عند الفقهاء حکما صریحاً لبیع مثل هذه الحقوق، ولکن الذی یظهر أن الإجازة المکتوبة إن کانت مقتصرة علی من أعطاها باسمه الخاص، فلا یجوز بیعها، کما فی تذاکر الطائرة فإنها تکون مخصوصة بالاسم، فلا یجوز بیعها لکون الشرکة إنما رضیت بعقد الإجارة مع رجل مخصوص، فلا یجوز له أن ینقل هذا الحق إلی غیره. وأما إذا کانت الإجازة غیر مخصوصة باسم رجل، فینبغی أن یجوز بیع ورقة الإجازة، مثل طوابع البرید، فإنها لا تکون لرجل مخصوص، وهی فی الحقیقة عبارة عن استیجار البرید لإرسال الرسائل أو غیرها من الأشیاء، فلو اشتراها رجل من مکتب البرید ثم باعها إلی آخر، فلا وجه للمنع فیه، وینبغی أن یجوز فیه الاسترباح أیضاً، إما لأن الطوابع عین قائمة، وإما لأنها حقوق فی ضمن الأعیان، ففارقت الحقوق المجردة، وإما لأن الربح الذی یحصل لبائعه أجرة ما عمل فی الحصول علی الطوابع، فأشبهت أجرة السمسار ، وکذلك حکم التذاکر التی لا تکون بإسم مخصوص، بل تکون إجازتها مفتوحة لکل من یحملها. ویدخل فی هذا النوع رخصۃ الإیراد (امپورت لائسنس) وهی ورقة تسمح بها الحکومة تاجراً لإیراد البضاعات من خارج المملکة،…. فالسؤال الذی ینشأ فی الظروف الحاضرة: هل یجوز لحامل رخصة الإیراد أن یبیع هذه الرخصة إلی تاجر آخر؟ وهل یجوز الاسترباح علی ذلك؟ فمن علماء عصرنا من منع ذلك، لکونه بیعاً لحق مجرد، والحق المجرد لیس مالاً، فلا یجوز بیعه. ولکن الذی یظهر لهذا العبد الضعیف عفا الله عنه – والله سبحانه أعلم – أن هذه الرخصة إن کانت باسم رجل مخصوص، حتی لا تسمح الحکومة لرجل آخر باستعمالها، فلا شبهة فی عدم جواز بیعها؛ لأن بیعه یؤدی حینئذ إلی الکذب والخدیعة؛ فإن مشتری الرخصة سیستعملها باسم البائع لا باسم نفسه، ولأن الإذن إنما حصل لرجل مخصوص، فلا یحل له أن ینقل ذلك إلی غیره. وأما إذا کانت الرخصة لکل من یحملها، ولا تختص باسم دون اسم، فالذی یظهر أن حکمها حکم طوابع البرید، فیجوز بیعها والاسترباح علیها، والله أعلم.

عبداللہ ولی 

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

10/07/1439

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے