021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہتمم یا ناظم کے نام پر مدرسے کا اکاؤنٹ کھولنا
62833جائز و ناجائزامور کا بیانغیبت،جھوٹ اور خیانت کابیان

سوال

موجودہ پرفتن دور میں مدارسِ دینیہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جارہا ہے اور حکومتی اداروں کی خفیہ ایجنسیاں مدارس کی رقوم بند کرنے کی حتی الامکان کوشش کررہی ہیں اور مدارس کے اکاؤنٹ پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ بلکہ بعض بینک والے تو مدرسہ کے نام پر اکاؤنٹ کھولتے ہی نہیں۔ ایسی صورت میں مدرسہ کے ارتقاء واستحکام پر برا اثر پڑنا یقینی ہے تو کیا اس ناگفتہ بہ صورتِ حال کے پیشِ نظر بینک میں مدرسہ کے نام کے بجائے مدیر کے نام پر اگر کسی کاروبار کی بنیاد پر اکاؤنٹ کھولا جائے اور حقیقت میں وہ کاروبار نہ ہو یا اس کے قریبی دوست یا رشتہ دار کا کاروبار تو موجود ہو لیکن اس میں مدیر کی کسی قسم کی شراکت نہ ہو تو اب بظاہر اکاؤنٹ کھولنا جھوٹ پر مبنی ہے، لیکن شر اور خطرے سے بچنے کی غرض سے ایسا کیا جائے تو کیا شرعی نقطۂ نظر سے اس طرح اکاؤنٹ کھولنے کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو تدبیر سوال میں لکھی گئی ہے، اس میں جھوٹ کے ساتھ ساتھ دیگر متعدد خرابیوں کا اندیشہ بھی ہے، اس لیے یہ تدبیر اختیار کرنا درست نہیں۔ البتہ مذکورہ مشکل سے نکلنے کی ایک ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے اور مدرسے کو اس کا ایک ذیلی شعبہ بنایا جائے پھر ٹرسٹ کے نام پر اکاؤنٹ کھول لیا جائے۔ اور جو رقوم آئیں ان کو ٹرسٹ ڈیڈ میں لکھے گئے اصول وضوابط کے مطابق متعلقہ مصارف پر خرچ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب