جنازے کے بعد اسقاط کے نام پر چیزوں کو تقسیم کرنا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب کوئی آدمی دنیا سے رخصت ہو رہا ہو اور اس کے ذمہ کچھ فرائض و واجبات باقی ہوں،تو ورثہ کےلیے اس کی طرف سے فدیہ دینے کا کتبِ فقہ میں ایک طریقہ لکھا ہے،لیکن آج کل اس کی شرائط کا بالکل لحاظ نہیں رکھا جاتا،جس کی وجہ سے اِس طریقے میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں اور دین کا اصل چہرہ مسخ ہورہا ہے،لہذا مروجہ حیلہ اسقاط سے احتراز لازم ہے۔
حوالہ جات
فی مشکاۃ المصابیح: عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد» ،متفق عليه.(مشکاۃ المصابیح،ح: 140)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : (ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : ونص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي فعل الدور وإن أوصى به الميت؛ لأنها وصية بالتبرع. (الدر المختار مع رد المحتار:2/ 72)