رخصتی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ شوہر اور اس کے ساتھ کچھ لوگ لڑکی والوں کے گھر جائیں اور وہاں عقدِ نکاح کرائیں۔عقدِ نکاح کے بعد جو خواتین و حضرات شوہر کے ساتھ آئے ہیں،ان کے ساتھ بھی لڑکی کو بھیج سکتے ہیں اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بعد میں اپنے خاندان کی خواتین کے ساتھ شوہر کے گھر پہنچا دیا جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو امِ ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر رخصت فرمادیا تھا۔
حوالہ جات
کما جاء فی الحدیث المفصل بعد قصۃ طویلۃ فی نکاح فاطمۃ رضی اللہ عنہا:” فقال: «أي بلال! ابتغنا بها طيبا» وأمرهم أن يجهزوها، فجعل لها سريرا مشرطا بالشرط، ووسادة من أدم حشوها ليف، وقال لعلي: إذا أتتك فلا تحدث شيئا، حتى آتيك، فجاءت مع أم أيمن حتى قعدت في جانب البيت وأنا في جانب…“.(صحيح ابن حبان : 6944 )
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: وهل يكره الزفاف؟ المختار: لا، إذا لم يشتمل على مفسدة دينية.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله:( وهل يكره الزفاف) :هو بالكسر ككتاب :إهداء المرأة إلى زوجها، قاموس. والمراد به هنا اجتماع النساء لذلك؛ لأنه لازم له عرفا ،أفاده الرحمتي .قوله: )المختار لا إلخ): هذا في الفتح مستدلا له بما مر من حديث الترمذي، وما رواه البخاري عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت :زففنا امرأة إلى رجل من الأنصار ،فقال النبي صلى الله عليه وسلم :أما يكون معهم لهو ؟فإن الأنصار يعجبهم اللهو.(الدر المختار مع رد المحتار:3/ 9)