021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مروجہ پگڑی کی شرعی حیثیت
63843خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں جب کوئی عمارت کاروباری اغراض و مقاصد کے لیے تعمیر کی جائے مثلا پلازہ یا کارنر پلاٹ وغیرہ تو دوران تعمیر لوگ آتے ہیں اور اپنے لیے دکان مختص کرکے چلے جاتے ہیں اور مالک سے گفت و شنید کے بعد ایک رقم طے پاجاتی ہے جو مالک کو ادا کی جاتی ہے اور پگڑی کے نام سے موسوم کی جاتی ہے،اب مالک اس طرح مختلف آنے والوں سے دکان مختص ہوجانے کے بعد رقم لیتا ہے اور یوں عمارت پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے،یہ پگڑی اکثر واپس نہیں کی جاتی،جبکہ مالک کی طرف سے اجازت ہوتی ہے کہ آپ مزید بھی آگے پگڑی پر دے سکتے ہیں،شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہنمائی فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پگڑی کی مروجہ صورت ناجائز ہے،کیونکہ یہ رقم یا تو رشوت کے حکم میں ہے یا پھر حق کرایہ داری کا عوض ہے جوشرعا مال نہیں،اس لیے پگڑی کی مد میں دی جانے والی رقم مالک کے ذمے قرض ہے جسے کرایہ دار کو واپس کرنا لازم ہے۔ مروجہ پگڑی کا ایک قابل عمل متبادل یہ ممکن ہے کہ پگڑی کے نام پر یک مشت لی جانے والی رقم کو ایک متعینہ مدت تک کے لیے اس دکان کا پیشگی کرایہ قرار دے دیا جائے اور ماہانہ یا سالانہ کرایہ اس کے علاوہ عام کرایہ کی بہ نسبت کچھ کم طے کیا جائے،اس صورت میں اس رقم پر کرایہ کے احکامات جاری ہوں گے،لہذا متعینہ مدت سے پہلے اجارے کو ختم کرنے کی صورت میں بقیہ مدت کے مقابلے میں اس رقم کا جو حصہ آتا ہے اسے واپس کرنا ضروری ہوگا۔ نیز اس متعین مدت جس میں کرایہ دار کو سکونت کا حق حاصل ہے سے پہلے اگر کرایہ دار کسی دوسرے کے حق میں اپنے اس حق کرایہ داری سے دستبردار ہونا چاہے تو اسے نہ صرف اس کی اجازت ہوگی،بلکہ وہ اس شخص سے اس کا عوض بھی لے سکے گا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 518): " (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن؛ ولذا لا يضمن بإتلاف شيء من الغنيمة أو وطء جارية منها قبل الإحراز؛ لأن الفائت مجرد الحق وإنه غير مضمون". "رد المحتار" (4/ 519): "قال: السيد الشهيد: لا نأخذ باستحسان مشايخ بلخ بل نأخذ بقول أصحابنا المتقدمين؛ لأن التعامل في بلد لا يدل على الجواز ما لم يكن على الاستمرار من الصدر الأول فيكون ذلك دليلا على تقرير النبي - عليه الصلاة والسلام - إياهم على ذلك، فيكون شرعا منه فإذا لم يكن كذلك لا يكون فعلهم حجة إذا كان كذلك من الناس كافة في البلدان كلها فيكون إجماعا والإجماع حجة، ألا ترى أنهم لو تعاملوا على بيع الخمر والربا لا يفتى بالحل". "بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(4/ 195): "ولو آجر بشرط تعجيل الأجرة أو شرط على المستأجر أن يعطيه بالأجرة رهنا أو كفيلا جاز إذا كان الرهن معلوما والكفيل حاضرا؛ لأن هذا شرط يلائم العقد وإن كان لا يقتضيه كما ذكرنا في البيوع فيجوز كما في بيع العين". "رد المحتار" (4/ 519): "مطلب في النزول عن الوظائف بمال (قوله: وعليه فيفتى بجواز النزول عن الوظائف بمال) قال: العلامة العيني في فتاواه: ليس للنزول شيء يعتمد عليه ولكن العلماء والحكام مشوا ذلك للضرورة"
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب