سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی مسئلہ ضعیف احادیث میں بیان ہوا ہو تو اس ضعیف حدیث کو لے کر اس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے یا اس معاملہ میں اپنی ذہن سے سوچ و بچار کرکے کوئی نتیجہ اخذ کرکے اس پر عمل کرنا بہتر ہے؟
اگر اس معاملے میں سوچ و بچار سے معاملہ کے متعلق اپنی رائے قائم کرکے اس پر عمل کرنا بہتر ہے تو اکثر بریلوی حضرات ایسے بہت سے کام کرتے ہیں جنھیں ہم بدعت کہتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ضعیف احادیث پر صرف فضائل کے باب میں عمل کیا جاسکتا ہے، عقائد، حلال و حرام یا جائز و ناجائز کے باب میں یہ قابل حجت نہیں بن سکتیں،ان پر صرف فضائل کے باب میں درج ذیل تین شرائط کے ساتھ عمل کیا جاسکتا ہے:
۱۔ضعف شدید نہ ہو۔
۲۔اس عمل کو سنت سمجھ کر نہ کیا جائے۔
۳۔شریعت کے مسلمہ اصول کے خلاف نہ ہو۔
لہذا دنیوی معاملات میں تو ہر شخص کو اپنی رائے پر عمل کرنے کا اختیار ہے،البتہ دینی معاملات میں عوام کے لیے اپنی رائے پر عمل جائز نہیں،بلکہ مستندعلماء سے راہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے،کیونکہ دینی مسئلے میں رائے قائم کرنے کے لیے شرعی علوم میں رسوخ ضروری ہے جو کہ عوام کو حاصل نہیں ہوتا اور اس کے بغیر گمراہی کا قوی اندیشہ ہے۔
بقیہ بریلوی حضرات کے متعلق آپ نے جو لکھا ہے ان کاموں کی صراحت کے بغیر ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
نیز بدعت ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ کسی نص کے خلاف وہ کام کررہے ہیں،بلکہ یہ کہ وہ کچھ ایسے کاموں کو دین سمجھ کر کر رہے ہیں جو کسی نص سے ثابت نہیں،کیونکہ عقل سے کسی چیز کا دین ہونا اور باعث ثواب ہونا ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (1/ 128):
"شرط العمل بالحديث الضعيف عدم شدة ضعفه، وأن يدخل تحت أصل عام، وأن لا يعتقد سنية ذلك الحديث".