021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رہائشی پلاٹ میں محض تجارت کی نیت کرنے سے زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
77799زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

میں نے آج سے کچھ سال پہلے ایک پلاٹ اپنا مکان بنانے کی نیت سے خریدا، دو تین سال پہلے کچھ رقم جمع ہوئی تو ایک اور پلاٹ ایک بہتر جگہ پر مکان بنانے کی نیت سے خرید لیا،جبکہ پرانے پلاٹ کے بارے میں نیت یہ کرلی کہ اسے بیچ کر نئے پلاٹ پر مکان تعمیر کرلوں گا۔ اب سوال کےدو حصّے ہیں:1۔کیا مجھے اب پرانے پلاٹ کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی،جبکہ میری نیت اسے بیچ کر اپنا مکان تعمیرکرنےکی ہے؟2۔پرانے پلاٹ کے حوالے سے بیچنے کی نیت کئےہوئےدوسال ہوگئے ہیں،اگردوسال کی زکوۃاداکرنی ہےتواس کاطریقہ کارکیاہوگا؟اس پلاٹ کی موجودہ قیمت کےحساب سے دوسال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟یاایک سال پہلےکی قیمت کےحساب سےپچھلے سال کی زکوۃاوراس وقت کی قیمت کے حساب سے اس سال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا مال تجارت اس مال کو کہتے ہیں جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور بعد میں بھی بیچنے کی نیت برقرار ہو،لہذاجوچیزشروع میں تجارت کی نیت سےنہ خریدی  گئی ہو،بلکہ بعدمیں اسےفروخت کرنے کا ارادہ کیا ہو تو وہ شرعا مال تجارت میں نہیں آتی،لہذا اس طرح محض ارادےسےاس پرزکوۃ لازم نہ ہوگی،ہاں رقم پر چونکہ بہر حال زکوۃ ہوتی  ہے، اس لیے پلاٹ بیچنے پر جو رقم حاصل ہوگی،اس پر زکوۃ سال گزرنے کی شرط پر لازم ہوگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272)
(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۱صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب