سوال: زید نے اپنے بیٹے کو اپنے دوکانوں کی نگرانی کے کام پر لگایا تھا، اس کا بیٹا مختلف مواقع پر دوکانوں سے کچھ رقم بچا کر رکھتا تھا۔ اب اس کے بیٹے نے اسی رقم سے ایک گاڑی خریدی ہے۔ تو کیا زید کے لئے جائز ہے کہ بیٹے سے وہ گاڑی واپس لے لے، کیونکہ یہ زید کے پیسوں سے خریدی گئی ہے ؟؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں اگر زیدکو پہلے سے معلوم تھا کہ اس کا بیٹا ایسا کر رہا ہے، تو اگر زید نے صراحتاً اجازت بھی دی ہو یا کوئی رضامندی کی دلیل پائی گئی، تو اس صورت میں یہ رقم اس کے بیٹے کی ملکیت ہے ، لہذا اس کے لئے جائز نہیں کہ بیٹے سے وہ گاڑی لے لے ۔
البتہ اگر زید نے نہ صراحتاً اجازت دی ہو اور نہ کوئی رضامندی کی دلیل پائی گئی،تو ایسی صورت میں شرعا ً یہ رقم قرض سمجھی جائےگی،اگر چہ لینے والے کی نیت قرض کی نہ ہو،لہذا زیدکو بیٹے سےگاڑی یا اتنی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہے۔
حوالہ جات
حاشية رد المحتار - (ج 6 / ص 256)
وفي خزانة الفتاوى إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للاب إلا إذا دلت دلالة التمليك.
الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 280)
دفع لابنه مالا ليتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الاب: إن أعطاه هبة فالكل له، وإلا فميراث.
وتمامه في جواهر الفتاوى
حاشية رد المحتار - (ج 4 / ص 518)
في القنية الاب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شئ فالكسب كله للاب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له
اللباب في شرح الكتاب - (ج 1 / ص 219)
(فإن قبض الموهوب له) الهبة (في المجلس بغير أمر الواهب) ولم ينهه (جاز) استحساناً، لأن الإيجاب إذنٌ له بالقبض دلالة