021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت بالعروض(تاجرسے چلتاہواکاروبارمضاربت پر لینا)
61755مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

زیدنےایک تاجر سے کہاکہ میں آپ کا کاروبار سنبھالوں گا آپ کے آنے کی ضرورت نہیں لیکن معاملہ یہ طے ہوا کہ نفع آدھا میرا ہو گا آدھا آپ کا ۔یاد رہے کہ زیدکی کاروبار میں کوئی شراکت نہیں ہے۔ا ب پوچھنا یہ ہے کہ اگر کاروبار میں نقصان ہو جائے تو زیدبھی اس کا ذمہ دار ہو گا اور نقصان بھرے گا؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت مضاربت بالعروض(سامان) کی ہے،جس میں زید مضارب اور تاجر رب المال کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن احناف اور جمہور ائمہ کے نزدیک مضاربت بالعروض جائز نہیں، الاّیہ کہ انکو بیچ کر نقد میں تبدیل کر لیا جائے،البتہ امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق مضاربت بالعروض جائز ہے۔حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی میں ضرورت کے وقت اس قول کو اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے اور انکی اتباع میں مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی فتاوٰی عثمانی میں اس گنجائش کو اختیار کیا ہے۔ ان فتاوٰی کو مدنطر رکھتے ہوئے مضاربت کی مذکورہ صورت کے جواز کی گنجائش ملتی ہے۔چنانچہ بوقت عقد کاروبار کی مالیت مال مضاربت شمار ہو گی جس کو عقد مضاربت کے وقت ہی باقاعدہ معلوم کر کے طے کرنا ضروری ہے تاکہ بعد میں کوئی ابہام و اختلاف نہ ہو۔ چونکہ زید کی حیثیت مضارب ہی کی ہے لہذا وہ کاوبار میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار نہ ہو گا، الاّیہ کہ وہ کوتاہی یا حد سے تجاوزکرے۔
حوالہ جات
(رد المحتار) (5/ 646) [سئل] فيما إذا دفع زيد لعمرو بضاعة على سبيل المضاربة، وقال لعمرو: بعها ومهما ربحت يكون بيننا مثالثة فباعها، وخسر فيها فالمضاربة غير صحيحة ولعمرو، أجر مثله بلا زيادة على المشروط حامدية. المغني في فقه الامام أحمد بن حنبل الشيباني للمقدسي (5/ 124) وعن أحمد رواية أخرى أن الشركة والمضاربة تجوز بالعروض وتجعل قيمتها وقت العقد رأس المال قال أحمد : إذا اشتركا في العروض يقسم الربح على ما اشترطا وقال الأثرم : سمعت أبا عبد الله يسئل عن المضاربة بالمتاع قال : جائز فظاهر هذا صحة الشركة بها اختار هذا أبو بكر وأبو الخطاب وهو قول مالك و ابن أبي ليلى وبه قال : في المضاربة طاوس و الأوزاعي و حماد بن أبي سليمان لأن مقصود الشركة جواز تصرفهما في المالين جميعا وكون ربح المالين بينهما وهذا يحصل في العروض كحصوله في الأثمان فيجب أن تصح الشركة والمضاربة بها كالأثمان ويرجع كل واحد منهما عند المفاصلة بقيمة ما له عند العقد واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب