زید کپڑے کا کاروبار کرتا ہے ۔ اس کو پیسہ کی ضرورت پڑی تو اس نے بکر سے قرض مانگا۔ بکر نے یہ کہہ کر پیسے دیے کہ ان پیسوں سے کپڑا خریدکر بیچو ۔ جتنے گز کپڑا بکے گا، ہر گز کے بدلہ ایک روپیہ میرا ہوگا۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے ؟ اگرزید نے ایسا کرلیا یعنی اس پیسہ سے کپڑ اخریدکر بیچنا شروع کردیا تو اب زید کے لیے کیا حکم ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں بکر کاروبار میں شرکت کررہا ہے اور شرکت کرتے وقت، نفع اس طرح طے کرنا ضروری ہے کہ ہر شریک کی نفع میں شرکت یقینی ہوجیسے مثلاًفیصد کے اعتبار سے نفع طے کرلیا جائے،نفع میں سے مقررہ رقم کسی شریک کے لیے مختص کرنا صحیح نہیں۔ لہذا "ہر گز کے بدلہ ایک روپیہ" مقرر کرنا درست نہیں۔ اس سے شرکت فاسد ہوجاتی ہے ۔ اس لیے یہ معاملہ درست نہیں۔
زید نے ایسا کر لیا تو اسے چاہیے کہ یہ معاملہ ختم کرے اوربکر کا پیسہ واپس کرے ۔ بکر سے پیسہ لینے کے بعد کاروبار میں جتنا نفع ہوا وہ سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کرے۔اگر سرمایہ کا تناسب معلوم نہ ہو تو اندازہ لگا کر معلوم کرلیا جائے۔
اصل حکم تو یہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے البتہ آسانی کے لیے صلحاً یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ بکر اپنی رضا مندی سے نفع زید کے لیے چھوڑ دے اور اصل سرمایہ کی بنیاد پر دوبارہ شرکت کا معاملہ کرلے۔ نیا معاملہ کرتے وقت فیصد کے اعتبار سے نفع طے کرلے۔یعنی مثلاً یہ کہے کہ ہر گز پر یا مکمل مال پر جتنا نفع ہو اس کا ۱۰ فیصد میرا ہوگا۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 59):
(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 305):
(وشرطها) أي شركة العقد (كون المعقود عليه قابلا للوكالة) فلا تصح في مباح كاحتطاب (وعدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 77):
(وأما) الشركة الفاسدة وهي التي فاتها شرط من شرائط الصحة۔۔۔۔والربح فيها على قدر المالين؛ لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط؛ لأن الشرط لم يصح، فألحق بالعدم، فبقي الاستحقاق بالمال، فيقدر بقدر المال، ولا أجر لأحدهما على صاحبه عندنا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 326):
(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل)