03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کی ملازمت
62695سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

زید ایک بینک میں ملازمت کرتا تھا جس کی تنخواہ سے اسنے بیس لاکھ روپے جمع کیے اور مکان خریدا اس بات کو کافی عرصہ ہوا اب بعض لوگوں نے کہا کہ آپکی تنخواہ حرام۔تھی جسکی وجہ سے آپکا کل سرمایہ حرام ہے اور اسکو صدقہ کرنا ہوگا اب سوال یہ ہیکہ موجودہ مالیت مکان کی کروڑوں میں ہیں تو اب بیس لاکھ صدقہ دیا جائے جو کہ قیمت خرید تھی یا پوری رقم صدقہ کی جائے گی

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مذکورہ شخص بینک کے کسی ایسے شعبے میں ملازم تھا جس کا براہ راست سودی معاملات اور سود کی لکھت پڑھت سے تعلق نہیں تھا مثلاً چوکیدار،چپڑاسی ،ڈرائیور و غیرہ تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی آمدنی حرام نہیں ہے اور اس آمدنی سے جو مکان خرید کر فروخت کیا تو مکان کی اصل قیمت اوراس پر ملنے والا نفع دونوں اسکے لئے حلال ہیں،لیکن اگر مذکورہ شخص بینک کے ایسے شعبے میں ملازم ہے جس کا تعلق براہ راست سود ی معاملات اور سود کی لکھت پڑھت سے ہے مثلا ً منیجر،کیشئیر وغیرہ تو اس صورت میں مذکورہ شخص کی آمدنی حلال نہیں تھی ،لہذا ایسی صورت میں اگر مطلق رقم پر مکان کا معاملہ کیا یعنی حلال یا حرام رقم کا تذکرہ نہیں کیا،پھرادائیگی اسی حرام رقم سے کی، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ،تو اب پوری قیمتِ فروخت صدقہ کرنا ضروری نہیں،بلکہ اگر بیس لاکھ روپے صدقہ کر دےتوبھی بری الذّمہ ہوجائے گا،تاہم پوری رقم کا صدقہ کرنا بہتر ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع - (7 / 154) وَعَلَى هذا يَخْرُجُ ما إذَا غَصَبَ أَلْفًا فَاشْتَرَى جَارِيَةً فَبَاعَهَا بِأَلْفَيْنِ ثُمَّ اشْتَرَى بِالْأَلْفَيْنِ جَارِيَةً فَبَاعَهَا بِثَلَاثَةِ آلَافٍ أَنَّهُ يَتَصَدَّقُ بِجَمِيعِ الرِّبْحِ في قَوْلِهِمَا وَعِنْدَ أبي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ لَا يَلْزَمُهُ التَّصَدُّقُ بِشَيْءٍ لِأَنَّهُ رِبْحٌ مَضْمُونٌ مَمْلُوكٌ لِأَنَّهُ عِنْدَ أَدَاءِ الضَّمَانِ يَمْلِكُهُ مُسْتَنِدًا إلَى وَقْتِ الْغَصْبِ وَمُجَرَّدُ الضَّمَانِ يَكْفِي لِلطَّيِّبِ فَكَيْفَ إذَا اجْتَمَعَ الضَّمَانُ وَالْمِلْكُ وَهُمَا يَقُولَانِ الطَّيِّبَ كما لَا يَثْبُتُ بِدُونِ الضَّمَانِ لَا يَثْبُتُ بِدُونِ الْمِلْكِ من طَرِيقِ الْأَوْلَى وفي هذا الْمِلْكِ شُبْهَةُ الْعَدَمِ على ما بَيَّنَّا فِيمَا تَقَدَّمَ فَلَا يُفِيدُ الطَّيِّبُ الدر المختار - (6 / 189) وإن كانا مما لا يتعين فعلى أربعة أوجه فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق ( وإن أشار إليها ونقد غيرها أو ) أشار ( إلى غيرها ) ونقدها ( أو أطلق ) ولم يشر ( ونقدها لا ) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل ( وبه يفتى ) والمختار أنه لا يحلمطلقا كذا في الملتقى ولو بعد الضمان هو الصحيح كما في فتاوى النوازل واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام وهذا كله على قولهما وعند أبي يوسف لا يتصدق بشيء منه كما لو اختلف الجنس فقہ البیوع جلد2 /1010 توجیہ قول الکرخی رح القول الثالث قول الکرخی رحمہ اللہ ومن مشایخنا من اختار الفتوی فی زماننا بقول الکرخی تیسیرا للامر علی الناس ،لازدحام الحرام ,ثم قال فلما ادی الضمان ،زالت شبھة الخبيث فطاب المشتري وربحه جميعا ,هذا ما ظهر لي من توجيه كلام الكرخي رحمه الله تعالي ,وذكر كثير من المتاخرين ان الفتوي الأن علي قول الكرخي دفعا للحرج علي الناس المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 422) اشترى بدراهم مغصوبة أو بدراهم اكتسبها من الحرام شيئاً، فهذا على وجوه؛ أما إن دفع إلى البائع تلك الدراهم، أولاً، ثم اشترى منه بتلك الدراهم. أو اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم، ودفعها أو اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم، ودفع غير تلك الدراهم، أو اشترى مطلقاً، ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر، ودفع تلك الدراهم، وفي الوجوه كلها لا يطيب له التناول قبل ضمان الدراهم، وبعد الضمان لا يطيب له الربح؛ هكذا ذكر في «الجامع الصغير» قال أبو الحسن الكرخي: هذا الجواب صحيح في الوجه الأول والثاني، وأما في الوجه الثالث والرابع والخامس فلا، واليوم الفتوى على قول أبي الحسن لكثرة الحرام دفعاً للحرج عن الناس، وعلى هذا تقرر رأي الشيخ الإمام الأجل الشهيد.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب