021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حوالہ کا کاروبار
61419خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

حوالہ کے ذریعہ سے جو رقم منتقل کی جاتی ہے اس کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حوالہ (ھنڈی/رقوم کی منتقلی) کا معاملہ درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے: 1. کرنسی کا تبادلہ ثمنِ مثل پر کیا جائے، یعنی عام مارکیٹ میں معاملہ کے دن اس کرنسی کی جو قیمت ہوگی اسی قیمت کے مطابق تبادلہ کیاجائے،اس سے کم یا زیادہ مقرر نہ کیا جائےتاکہ سود کا اندیشہ نہ ہو۔ 2. اگر معاملہ مختلف کرنسیوں میں ہو تو دونوں عوضوں میں سےکسی ایک پرمجلس عقد میں قبضہ کیا جائے،یعنی معاملہ کرتے وقت یا تو وہ شخص جو مثلاًپاکستان میں روپیہ دےگا(یعنی صراف اورMoney changer) وہ اسی مجلس میں دوسری کرنسی ( ڈالر ،ریال وغیرہ) پر قبضہ کرے،یا جو شخص اس کرنسی کے عوض پاکستانی روپیہ لے رہا ہے وہ پہلے پاکستانی روپیہ پر قبضہ کرے۔ 3. اس طریقےسےہنڈی کے ذریعہ یا حوالہ کے ذریعہ رقم بھیجنےکی قانوناً اجازت ہو۔ مذکورہ بالا شرائط میں سے اگر پہلی دو شرائط کا لحاظ نہ رکھا گیا تو یہ معاملہ سرے سے ناجائز ہوگااور تیسری صورت میں قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگالیکن کمایا ہوا نفع حرام نہ ہوگا۔ لہٰذا مذکورہ تفصیل کی رُو سےصورتِ مسئولہ میں اگر سودا عام مارکیٹ کے ریٹ پرکیاجائے،او ردونوں عوضوں(کرنسیوں) میں سے کسی ایک عوض(کرنسی) پرسودے کی مجلس میں قبضہ بھی ہوجائے،اورقانونی طور پر بھی اس طرح کرنے کی اجازت ہو تو اسطرح ہنڈی اور حوالہ کرنا جائز ہے۔اوراگردونوں جانب سے اُدھار کا معاملہ ہوجیسے کریڈٹ کی صورت میں ہوتاہےتو یہ صورت ناجائزہے
حوالہ جات
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1 / 168): ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع، بحوث في قضايا فقهية معاصرة- القاضي محمد تقي العثماني - (1 / 136) وأما الربية الباكستانية والريال السعودي، فليس بينهما نسبة ثابتة، بل إنها تتغير كل حين بتغير أسعار هذا أو ذاك. فتبين أن عملات الدول المختلفة أجناس مختلفة، ولذلك تختلف أسماؤها وموازينها ووحداتها المنشعبة منها. ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع، أما عند الشافعي رحمه الله فلأنه يجوز بيع الفلس بالفلسين في عملة واحدة، ففي العملات المختلفة أولى، وهو رأي في مذهب الحنابلة كما قدمنا، وأما عند مالك رحمه الله فلأنه يجعل هذه العملات من الأموال الربوية فإذا اختلفت أجناسها جاز التفاضل، وأما عند أبي حنيفة وأصحابه فلأن تحريم بيع الفلس بالفلسين مبني عندهم على كون الفلوس أمثالا متساوية قطعا، فيبقى عند التفاضل فضل خال عن العوض، ولكن عملات البلاد المختلفة لما كانت أجناسا مختلفة، لم تكن أمثالا متساوية، فلا يتصور الفضل الخالي عن العوض. فيجوز إذن أن يباع الريال السعودي مثلا بعدد أكثر من الربيات الباكستانية.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب