021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دفن میں تاخیر کا حکم
62053جنازے کےمسائلجنازے کو اٹھانے اور دفنانے کا بیان

سوال

آج بروزجمعہ ایک شخص کا انتقال ہو گیا ہے۔ اہل میّت کی خواہش یہ ہے کہ میّت کو سب سے قریب والے قبرستان میں دفنا دیا جائے، جو تقریباً دس منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ قبرستان آج بند ہے اور ہفتہ کے دن کھلے گا۔ ایک دیندار شخص یہ فرمارہے تھے کہ میّت کی تدفین بحکم شریعت کے جلد از جلد ہو نی چاہیئےلہذا اس قریب والے قبرستان کو چھوڑ کر دوسرے قبرستان میں دفنا نا ہو گا جو کہ پچیس منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اہل میّت کی خواہش یہ ہے کہ میّت کو قریب تر قبرستان میں دفنایا جائے تاکہ انکی زیارت روزانہ ہو سکے۔ اس معاملہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میّت کو دفن کرنے کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ میں جلدی کر نی چاہیئےاور آسانی کے ساتھ جتنی جلدی ممکن ہو سکے دفن کر دینا چاہیئے۔ میّت کو بلا کسی شدید عذر کے دفن کرنے میں تاخیر کر نا شرعاً جائز نہیں۔ لہذا صورتِ مسؤلہ میں میّت کو محض قریب والے قبرستان میں دفنانے کے خاطر ایک دن روکے رکھنا معتبر عذر نہیں جس وجہ سے تاخیر کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہو، اس لئے صورتِ مسؤلہ میں اس میّت کو اسی دن دوسرے قبرستان میں جو پچیس منٹ کی مسافت پر ہےدفنانا چاہیئے۔
حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 200) عن الحصين بن وحوح، أن طلحة بن البراء، مرض فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقال: «إني لا أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت فآذنوني به وعجلوا فإنه، لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله» مشكاة المصابيح (1/ 538) وعن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة» الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 239) (قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا. قال في الفتح واتفقت كلمة المشايخ في امرأة دفن ابنها، وهي غائبة في غير بلدها فلم تصبر، وأرادت نقله على أنه لا يسعها ذلك، فتجويز شواذ بعض المتأخرين لا يلتفت إليه. وأما نقل يعقوب ويوسف - عليهما السلام - من مصر إلى الشام ليكونا مع آبائهما الكرام فهو شرع من قبلنا ولم يتوفر فيه شروط كونه شرعا لنا اهـ ملخصا وتمامه فيه
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب