021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع میں اقالہ کرنے والے کے لیے جرمانےکی شرط لگانا
63780 خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

بیع یعنی خرید و فروخت کرتے وقت یہ شرط رکھنا کہ اگر بائع یہ چیز واپس کرنا چاہے یا مشتری یہ چیز واپس کرنا چاہے تو واپس کرنے والا 5000 یا 10000 روپے بطورِ پشیمانی جرمانہ ادا کرے گا۔ تو اس شرط کے ساتھ خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیع کرتے وقت اس طرح اقالے کے لیے جرمانے کی شرط رکھنا شرعاً جائز نہیں، تاہم ایسی صورت میں یہ بیع درست ہوگی۔ اس لیے کہ اس میں جو جرمانے کی شرط ہوگی اس کا تعلق بیع سے نہیں بلکہ اقالہ ( یعنی بیع کو ختم کرنا) سے ہوگا۔ لہٰذا اس شرط سے بیع پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بعد میں اگر باہمی رضامندی سے اقالہ ہوگا تو وہ اسی ثمن پر کرنا ضروری ہوگا جس پر بیع ہوئی تھی، بائع یا مشتری میں سے کسی کے لیے دوسرے سے جرمانے کی مد میں کوئی رقم لینا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 125) (قوله: وتصح بمثل الثمن الأول) حتى لو كان الثمن عشرة دنانير، فدفع إليه دراهم ثم تقايلا وقد رخصت الدنانير رجع بالدنانير لا بما دفع، وكذا لو رد بعيب وكذا في الأجرة لو فسخت ولو عقد بدراهم فكسدت ثم تقايلا رد الكاسد كذا في الفتح نهر. (قوله: وبالسكوت عنه) المراد أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب