021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک گارنٹی لینے کا حکم
69381خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مفتیان ِکرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ۔مثلاً :زیدکوئی کاروبار کرنا چاہتاہے،جبکہ اس کے پاس نقدی نہیں ہےتو وہ بینک کے پاس جاتا ہے۔بینک اس سے کہتاہے کہ تمہارے پا س کوئی پراپرٹی ہے۔زیدکہتا ہے کہ میرے پاس ایک مکان ہے جس کی مالیت تقریباً 80 لاکھ ہے۔بینک زید سے کہتاہے کہ ہم آپ کے مکان کی رجسٹری اپنے پاس رکھیں گےاور آپ کو لکھ کر دینا ہوگا کہ اگر آپ نے ہمارا متعینہ قرض ادا نہ کیا تو مقررہ وقت میں ہم آپ کا مکان نیلام کردیں گے ۔زید اس پر راضی ہوجاتاہے۔بینک زید سے اخراجات وغیرہ کی مد میں کچھ رقم لیتاہے (بینک گارنٹی کا تقریباً 2 فیصد"سائل" )جو ناقابل ِ واپسی ہوتی ہےاور زیدکو 50 لاکھ روپے کا ایک فارم دیتاہےجس کو بینک گارنٹی کہا جاتا ہے اور اس کا 20 یا 25 فیصد بینک زید سے مثلاً 12 لاکھ روپے نقد لے لیتاہےاور یہ 12 لاکھ روپے قابل ِواپسی ہوتے ہیں ۔بینک اس رقم کو اپنے استعمال میں رکھتاہے(فکس ڈپازٹ میں ،جسکا سارانفع بینک کوملتا ہے،"سائل") اور زید کارابطہ ایک کمپنی سے کروادیا جاتاہے یا زید اس کمپنی سے رابطہ کرلیتا ہے۔وہ کمپنی بینک سے رقم لے گی اور زید اس 50 لاکھ روپے والی بینک گارنٹی کے ذریعے اس کمپنی سے 50 لاکھ روپے تک مال لے سکتاہے۔زید سے کہا جاتا ہے کہ مقررہ مدت مثلاً ایک سال بعد جب تم پچاس لاکھ روپے ہمیں واپس کروگے تو آپ کو  آپ کے مکان کے کاغذات اور بارہ لاکھ روپے جو قابل واپسی تھا،واپس مل جائینگے یا پچاس لاکھ میں سے منہا ہوجائے گا۔ تو اب آیا زیدکو اس طرح  بینک سے بینک گارنٹی لینا /بنوانا جائز ہے؟

تنقیح:سائل نے مذکورہ پوری تفصیل سودی بینک سے متعلق ذکرکی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں سودی بینک سے مذکورہ بینک گارنٹی لینا کئی وجوہ کی بناء پر ناجائزہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ بینک گارنٹی دینے کی بناء پر اخراجات وغیرہ کی مد میں جو رقم لے رہا ،وہ صرف حقیقی اخراجات کی فیس نہیں ہے،بلکہ در حقیقت کفالہ (گارنٹی )کی اجرت ہے ،جو کہ ناجائز ہے۔اس لیے کہ  بینک اخراجات کی مد کے نام سے جو رقم لے رہا ہے وہ بینک گارنٹی کا 2 فیصد ہے جو کہ ایک لاکھ روپے بنتا ہے۔اور حقیقی اخراجات کی مد میں فیس لینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ  فیس اجرت مثل سے زائد نہ ہو۔جبکہ مذکورہ فیس حقیقی اخراجات سے زائد ہے۔لہذااس صورت میں بینک کو کفالہ کی اجرت دینا لازم آئے گا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ زید بینک کے پاس  مکان کی رجسٹری کے علاوہ  جو رقم رکھوارہا ہے ،اس کی حیثیت قرض کی ہے۔اس کو رہن قراردینا ممکن نہیں ہے۔اس لیے کہ رہن کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی عین شئی ہو۔ جبکہ  مذکورہ رقم بینک کے استعمال کی شرط لگادینے کی وجہ سے بینک کے ذمہ میں دین ہوگی۔لہذا  یہ رہن نہیں بن سکتی۔جب اس مذکورہ  رقم کی حیثیت قرض کی ہے تو زیدبینک کو قرض دے کر اس سے بینک گارنٹی کی صورت میں ایک اضافی  فائدہ حاصل کررہا ہے،جو کہ سود ہے۔

نیز سودی بینک سے مذکورہ معاملہ کرنے کی وجہ سے بینک کے   سودی معاملات  میں تعاون کا پہلو بھی ہے۔لہذا درج ِبالا خرابیوں کی وجہ سے  زیدکے لیے بینک سے مذکورہ گارنٹی لینا جائز نہیں ہے۔البتہ متبادل کےطور پر غیر سودی بینک سے بینک گارنٹی لی جاسکتی ہے ۔لہذا آپ غیر سودی بینک سے گارنٹی لےلیں تو وہ شرعاً جائز ہوگی۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (20/ 56)
ولو كفل رجل عن رجل بمال على أن يجعل له جعلا فالجعل باطل هكذا روي عن إبراهيم رحمه الله وهذا لأنه رشوة والرشوة حرام فإن الطالب ليس يستوجب بهذه الكفالة زيادة مال فلا يجوز أن يجب عليه عوض بمقابلته.
فقہ البیوع (2/1108)
أن خطاب الضمان  لایجوز أخذ الأجر علیہ  لقاء عملیۃ الضمان (والتی یراعی فیھا عادۃً مبلغ الضمان ومدتہ) سواء أکان بغطاء أو بدونہ۔أماالمصاریف الإداریۃلإصدار خطاب الضمان بنوعیہ فجائزۃ شرعاً،مع مراعاۃ عدم الزیادۃعلی أجر المثل،وفی حالۃ تقدیم غطاء کلی أو جزئی،یجوز أن یراعی فی تقدیر المصاریف لإصدار خطاب الضمان ماقد تتطلبہ المھمۃ الفعلیۃ لأداء ذلك الغطاء۔واللہ اعلم۔
المعيار الشرعی رقم  5
لا یجوز أخذ الأجر ولا إعطاؤہ مقابل مجرد الکفالۃ مطلقاً۔ویحق للکفیل  إستیفاء المصروفات الفعلیۃ للکفالۃ۔
بحوث فی قضایا فقھیہ معاصرہ(351/1)
ھل یجوز لصاحب الحساب الجاری  أن یرھن المبلغ المودع فی ھذا الحساب توثیقاً لدین قد وجب علیہ لسبب أو آخر؟والجواب عن ھذاالسؤال :أن المرھون یجب عند الجمھور أن یکون عیناً متقوماً یجوز بیعہ،فلا یصلح الدین  أن یکون رھناً،وقدمنا أن الحساب الجاری دین فی ذمۃ البنك ،فلا یصلح رھنہ علی  قول جمھور الفقہاء۔۔۔أما الودائع الإستثماریۃ فی البنوك التقلیدیۃ فلا یختلف حکمھا عن الحسابات الجاریۃ،لأنھا قروض کما أسلفنا،فنطبق علیھا جمیع ماقلنا فی رھن الحسابات الجاریۃ۔
 
بدائع الصنائع (7/ 395)
وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا لأنها فضل لا يقابله عوض والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب۔
بحوث فی قضایا فقھیہ معاصرہ(19/1)
وھناك نوع آخر من الرھن یوجد فی قوانین کثیر من البلاد الإسلامیۃ،لا یقبض فیہ المرتھن علی الشیء المرھون۔وإنما یبقی بید الراھن ،ولکن یحق للدائن إذا قصر المدین فی الأداء أن یطالب ببیعہ إستیفاء لدینہ من حصیلۃ بیعہ،وھذاالنوع من الرھن یسمی أحیاناً  ألرھن الساذج وأحیاناً الرھن السائلۃ۔۔۔۔۔۔  إن المرتھن فی الرھن السائل وإن کان لایقبض الشیء المرھون،ولکنہ فی عموم الأحوال یقبض علی مستندات ملکیتہ،فیحتمل أن یقال:إن الرھن قد تم بقبض المستندات،ثم صار الشئ المرھون کالعاریۃ فی ید الراھن۔۔۔المقصود من الرھن ھو توثیق الدین ،وقد أجازت الشریعۃ لحصول  ھذا المقصود أن یحبس الدائن ملك المدیون ویمنعہ عن التصرف فیہ إلی أن یتم تسدید الدین ۔فان رضی الدائن بحصول  مقصودہ بأقل من ذلك ،وھو أن تبقی العین المرھونۃ بید الراھن،ویبقی للمرتھن حق الإستیفاء فقط۔فلا یری فی ذلك أی محظور شرعیّ۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

14/07/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب