021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں نماز جنازہ کا حکم
68940جنازے کےمسائلنماز جنازہ

سوال

جامعۃ الرشید کی مسجد میں عموما نماز میں تقریبا 1500 نمازی نماز ادا کرتے ہیں ۔ نماز جنازہ کی صورت میں نمازیوں کو باہرجاکر نماز جنازہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ مسجد سے باہر جگہ لیول نہ ہونے کی وجہ سے صفیں بنانے ،سیدھی کرنے،شدید گرمی  اور بارش  وغیرہ کی وجہ سے مشکلات ہوتی ہیں۔ نیز نمازی حضرات کے آنے  کے راستوں میں بھی دشواری ہوتی ہے، نماز جنازہ کے بعد بھی جنازہ لے جانے اور لوگوں کے نکلنے میں شدید دقت ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:

                             1۔کیا مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے؟ کہ میت محراب میں رکھ دی جائے جبکہ نمازی مسجد ہی میں صفیں بنا لیں۔

                             2۔ میت محراب کی دیوار  سے باہر رکھی جائے جبکہ امام میت سے متصل محراب کی دیوار کے ساتھ محراب کے اندر کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھائے اور نمازی حضرات مسجد میں صفیں بنالیں تو کیا نماز جنازہ ہوجائیگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں چار اقوال ہیں :

(1)بہرحال مکروہ تحریمی ہے،خواہ جنازہ مسجد  کے اندر ہو یا باہر۔

(2)مکروہ تحریمی سے کم اور تنزیہی سے زیادہ ،دونوں کے درمیان ایک مستقل مرتبہ ہے جس کو "اساءۃ" کہتے ہیں۔

(3)جنازہ مسجد سے باہر ہو تو مسجد کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں۔

(4)جنازہ مسجد کے اندر ہو یا باہر بہرحال مکروہ تنزیہی ہے۔

احسن الفتاوی میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی  صاحب رحمہ اللہ تعالی  نے دلائل کے لحاظ سے اسی قول کراہت تنزیہیہ  کو راجح  قرار دیا ہے،علی أنہ أوسط و أعدل و أوفق بالروایات المختلفۃ.

چونکہ بہت سے فقہا  عظام رحمھم اللہ  کے ہاں کراہت تنزیہیہ  کی طرح کراہت تحریمیہ  بھی مصحح ہے  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا معمول یہی تھا کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے ۔ لہٰذا   حتی الامکان کوشش یہی ہو کہ جنازہ مسجد سے باہر ادا کیا جائے، البتہ مسجد کے اندر بھی جنازہ پڑھنا درست تو ہے لیکن خلاف اولی ہے اور مسجد میں  جنازہ اگر کسی عذر کی وجہ سے پڑھا جائے تو پھر خلاف اولی بھی نہیں  ۔

سوال میں جن اعذار کی وجہ سے نماز جنازہ  مسجد میں کروانے کی بابت پوچھا گیا  ہے ،  وہ درج ذیل ہیں:

          1۔نمازیوں کو مسجد سے  باہر جاکر نماز جنازہ  پڑھنا پڑتی ہے۔

          2۔جگہ برابر نہ ہونے کی وجہ سے صفیں بنانے اور سیدھی کرنے میں دقت ہوتی ہے۔

          3۔شدید گرمی کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔

          4۔مسجد کے باہر موجود میدان سے باہر نکلنے کے راستے کے تنگ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نکلنے اور جنازہ لے جانے میں  شدید دقت  ہوتی ہے۔ 

                                  5۔ اور بارش کی وجہ سے  مشکلات ہوتی ہیں۔

          ذکر کردہ اعذار میں سے بارش ایسا عذر ہے کہ جس کی بنا پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا خلاف اولی بھی  نہیں۔نیز گرمی اگر  بہت شدید ہو اور نمازیوں کو سخت تکلیف ہوتی ہو تو  اس کا  بھی یہی حکم ہے۔باقی اعذار ایسے نہیں کہ ان کا کوئی حل نہ نکل سکے ،اس لیے ان اعذار کی وجہ سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا خلاف اولی ہے۔البتہ جہاں جگہ یا راستوں کی ایسی تنگی ہو جو عوام کے لیے سخت اذیت کا باعث  ہو، تو  مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی کراہت نہ ہوگی۔

نیز مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا  بہتر طریقہ ( عذر یا بغیر عذر دونوں صورتوں میں  ) یہ ہے کہ   محراب  سے باہر جنازہ رکھنے کی جگہ بنائی جائے   جہاں میت رکھ کر ،امام اور کچھ مقتدی  بھی مسجد سے باہر  کھڑے ہوسکیں  اس لیے کہ علامہ  اکمل الدین البابرتی  رحمہ اللہ نے العنایۃ شرح الھدایۃ میں  اس صورت کو  با لاتفاق  صحیح قرار دیا ہے:

قال  أکمل الدین البابرتی رحمہ اللہ:اذا کانت الجنازۃ فی المسجد فالصلاۃ علیھا مکروھۃ باتفاق اصحابنا ،وان کانت الجنازۃ  والامام و بعض  القوم  خارج المسجد،والباقی  فیہ:لم یکرہ باتفاق اصحابنا،وان کانت الجنازٰۃ وحدھا خارج المسجد ،ففیہ اختلاف المشایخ.

                                                                                                        (العنایۃ شرح  الھدایۃ:2/128)

 اور اسی طرح مجمع الانھر میں  شیخی زادہ  رحمہ اللہ  اور المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں أبو المعالي برهان الدين محمود رحمہ اللہ نے بھی یہی قول نقل فرمایا ہے  ۔ لیکن علامہ  اکمل الدین البابرتی رحمہ اللہ کے اس  قول کو  دوسرے تمام  فقہا کرام نے غلط قرار دیا ہے  اور اس صورت میں جواز بالاتفاق کے قول پر تردید فرمائی ہے، قال ابن نجیم رحمہ اللہ:قوله:( ولا في مسجد) :لحديث أبي داود مرفوعا:"من صلى على ميت في المسجد فلا أجر له" وفي رواية ،فلا شيء له ،أطلقه فشمل ما إذا كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد ،والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد، والإمام، والقوم خارج المسجد ،وهو المختار،خلافا لما أورده النسفي، كذا في الخلاصة. وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم. وقيل: لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو مبني على أن الكراهة لاحتمال تلويث المسجد والأول هو الأوفق لإطلاق الحديث، كذا في فتح القدير، فما في غاية البيان والعناية من أن الميت وبعض القوم إذا كانا خارج المسجد والباقون فيه لا كراهة اتفاقا، ممنوع.       

                                   (البحر الرائق:2/201)

اور اسی طرح کتب ذیل میں بھی  یہی فیصلہ (یعنی عنایہ کے  قول کا بالاتفاق  نہ ہونا)تحریر ہے:

                                                                                                     فتح القدیر:2/128،تبیین الحقائق مع حاشیۃالشبلی:1/243، نورالایضاح:128،مراقی الفلاح:327،عالمگیریہ:1/165،الدرالمختارمع ردالمحتار:1/827،بذل المجہود:5/203،عمدۃ

 القاری:2/117،الکوکب الدری:315،العرف الشذی:351،کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ 1/527،فتاوی رشییدیہ:354،امداد الفتاوی:1/533،فتاوی دارالعلوم دیوبند:1/375 و غیرھامن کتب المذہب فی الفقہ و الحدیث.

غرضیکہ میت ،امام اور بعض مقتدیوں کے مسجد سے خارج ہونے کی صورت میں عنایہ کا بالاتفاق بلاکراہت  جواز کا قول بالاتفاق صحیح نہیں ،سب نے اس کو رد کیا ہے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے رد المحتار اور منحۃ الخالق میں نہر  سے صورت تطبیق  یہ نقل فرمائی ہے کہ عدم کراہت بالاتفاق  کا قول صرف ان لوگوں کے حق میں ہے، جو مسجد سے خارج ہیں ۔ جو نمازی مسجد کے اندر ہیں ان کی نماز کے بارے میں اختلاف ہے اور کراہت راجح ہے۔

البتہ چونکہ عنایہ میں علامہ بابرتی رحمہ اللہ   کے  قول  کی وجہ سے (اگرچہ وہ صرف مسجد سے باہر کھڑے ہونے والوں کے حق میں بلاکراہت  نماز درست ہونے پر محمول ہے) اور ہمارے عرف میں بھی جب میت مسجد سے باہر رکھ کر امام اور کچھ مقتدی بھی مسجد سے باہر کھڑے ہوں تو یہی کہا جاتا ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر پڑھا جارہا ہے اور   باقی لوگ مسجد سے جنازہ میں شریک ہیں،لہٰذا مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی بہتر صورت یہی ہے جو اوپر بیان کردی گئی ہے یعنی  محراب سے باہر جگہ بنائی جائے جہاں میت رکھ کر امام اور کچھ مقتدی  بھی مسجد سے باہر کھڑے ہوسکیں۔

نیز یہ  بات بھی ذہن میں رہے کہ مذکورہ بالا تمام تر تفصیل اس مسئلہ کی نوعیت کے اعتبار سے لکھی گئی ہے، لیکن چونکہ حدیث سنن ابی داؤد  میں جو کہ حسن  درجے کی روایت ہے ، مسجد میں میت پر نماز جنازہ پڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے کہ  مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے والے ثواب سے محروم رہتے ہیں ،لہٰذا احوط یہی ہے کہ  حتی الامکان کوشش کرکے جنازہ مسجد سے باہر ہی پڑھا جائے ۔

حوالہ جات
روی الامام ابو داؤد رحمہ اللہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قال :قال رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من صلی علی جنازۃ فی المسجد ، فلا شیء لہ "وفی روایۃ " فلا شیء علیہ ".
                                     (سنن ابی داؤد:3191)  
قال ابن الھمام رحمہ اللہ:قوله:( ولا يصلى على ميت في مسجد جماعة): في الخلاصة، مكروه، وسواء كان الميت، والقوم في المسجد، أو كان الميت خارج المسجد، والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد، والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد. هذا في الفتاوى الصغرى. قال: هو المختار خلافا لما أورده النسفي رحمه الله ،اهـ. وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم.وقيل لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو بناء على أن الكراهة لاحتمال تلويث المسجد، والأول هو الأوفق لإطلاق الحديث الذي يستدل به المصنف، ثم هي كراهة تحريم أو تنزيه؟ روايتان، ويظهر لي أن الأولى كونها تنزيهية.... وعلى كراهة التنزيه كما اخترناه فقد لا يلزم الخلاف لأن مرجع التنزيهية إلى خلاف الأولى فيجوز أن يقولوا: إنه مباح في المسجد، وخارج المسجد أفضل فلا خلاف.ثم ظاهر كلام بعضهم في الاستدلال أن مدعاهم الجواز وأنه خارج المسجد أفضل فلا خلاف حينئذ.               (فتح القدیر:2/128)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(وكرهت تحريما) وقيل :(تنزيها في مسجد جماعة هو) :أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم.(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة.
وقال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:قوله:( مطلقا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة. وفي مختارات النوازل سواء كان الميت فيه، أو خارجه هو ظاهر الرواية. وفي رواية لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، قوله:( بناء على أن المسجد إلخ) :أما إذا عللنا بخوف تلويث المسجد فلا يكره؛ إذا كان الميت خارج المسجد وحده، أو مع بعض القوم ،اهـ ح. قال في شرح المنية: وإليه مال في المبسوط، والمحيط، وعليه العمل، وهو المختار. اهـ.قلت: بل ذكر في غاية البيان والعناية أنه لا كراهة فيها بالاتفاق، لكن رده في البحر. وأجاب في النهروبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير.
                                                                                                                                                               (رد المحتار علی الدر المختار:2/225 )
وقا ل أیضا:إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية، والاعتكاف كما في المبسوطوانظر هل يقال: إن من العذر ما جرت به العادة في بلادنا من الصلاة عليها في المسجد؛ لتعذر غيره، أو تعسره بسبب اندراس المواضع التي كان يصلي عليها فيها، فمن حضرها في المسجد إن لم يصل عليها مع الناس لا يمكنه الصلاة عليها في غيره، ولزم أن لا يصلي في عمره على جنازة، نعم قد توضع في بعض المواضع خارج المسجد في الشارع فيصلى عليها، ويلزم منه فسادها من كثير من المصلين لعموم النجاسة ،وعدم خلعهم نعالهم المتنجسة مع أنا قدمنا كراهتها في الشارع. وإذا ضاق الأمر اتسع، فينبغي الإفتاء بالقول بكراهة التنزيه الذي هو خلاف الأولى ؛كما اختاره المحقق ابن الهمام، وإذا كان ما ذكرناه عذرا، فلا كراهة أصلا، والله  تعالى  أعلم.
                           (رد المحتار علی الدر المختار:2/226)
وقال شیخی زادہ  رحمہ اللہ:وقال (وتكره في مسجد جماعة إن كان الميت فيه) أي في المسجد خلافا للشافعي (وإن كان) الميت (خارجه) أي المسجد وقام الإمام خارج المسجد ومعه صف والباقي في المسجد، كذا في أكثر الكتب، لكن في الإصلاح ولو كانت الجنازة والإمام وبعض القوم خارج المسجد وباقي القوم في المسجد، كما هو المعهود في جوامعنا ،لا يكره باتفاق أصحابنا، وإنما الاختلاف لو كانت الجنازة وحدها خارج المسجد والإمام والقوم في المسجد، وكلام المصنف لا يدل على هذا تدبر (اختلف المشايخ) فقيل: لا يكره وهو رواية النوادر عن أبي يوسف لأنه ليس فيه احتمال تلويث المسجد وقيل: يكره لأن المسجد أعد لأداء المكتوبات فلا يقام فيه غيرها إلا لعذر.
                                       (مجمع الانھر:1/185)
                                                وقال أبو المعالي برهان الدين محمود رحمہ اللہ: ثم هذه المسألة على أربعة أوجه؛ إن كانت الجنازة والإمام والقوم في المسجد فالصلاة مكروهة بالاتفاق.وإن كان الإمام مع بعض القوم، والجنازة خارج المسجد وباقي القوم في المسجد؛ ذكر نجم الدين النسفي في "فتاويه" : أن الصلاة غير مكروهة بالاتفاق، وكثير من مشايخنا ذكروا في هذه الصورة اختلاف المشايخ؛ بعضهم قالوا: يكره، وإليه مال الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني، والشيخ الإمام الزاهد ركن الإسلام الصفار رحمهما الله، وحكي أن هذه الواقعة وقعت في زمن الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني، فجلس ولم يصل، وتابعه من كان معه في مسجد الأنباء، ثم زجر الناس على المنبر أشد الزجر، وقال: هذه بدعة، وكان هذا القائل يعتمد المعنى الأول في الوجه الأول. وبعض مشايخنا قالوا: لا تكره الصلاة في هذه الصورة، وكان هذا القائل اعتمد المعنى الثالث في الوجه الأول.وإن كانت الجنازة وحدها خارج المسجد، والقوم مع الإمام في المسجد فمن اعتبر المعنى الأول يقول بالكراهية ههنا، ومن اعتبر المعنى الثالث لا يقول بالكراهية ههنا. (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی:5/307)
قال ابن نجیم رحمہ اللہ:قوله:( ولا في مسجد) :لحديث أبي داود مرفوعا:"من صلى على ميت في المسجد فلا أجر له" وفي رواية ،فلا شيء له ،أطلقه فشمل ما إذا كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد ،والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد، والإمام، والقوم خارج المسجد ،وهو المختار،خلافا لما أورده النسفي كذا في الخلاصة، وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم ،وقيل: لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو مبني على أن الكراهة؛ لاحتمال تلويث المسجد والأول هو الأوفق ؛لإطلاق الحديث كذا في فتح القدير، فما في غاية البيان والعناية من أن الميت وبعض القوم إذا كانا خارج المسجد والباقون فيه لا كراهة اتفاقا ممنوع، وقد يقال إن الحديث يحتمل ثلاثة أشياء: أن يكون الظرف، وهو قوله في مسجد ظرفا للصلاة والميت وحينئذ فللكراهة شرطان كون الصلاة في المسجد، وكون الميت فيه فإذا فقد أحدهما فلا كراهة، الثاني أن يكون ظرفا للصلاة فقط فلا يكره إذا كان الميت في المسجد والقوم كلهم خارجه، الثالث أن يكون ظرفا للميت فقط وحينئذ حيث كان خارجه فلا كراهة، وما اختاروه كما نقلناه لم يوافق واحدا من الاحتمالات الثلاثة؛ لأنهم قالوا بالكراهة إذا وجد أحدهما في المسجد: المصلي أو الميت، كما قال في المجتبى وتكره سواء كان الميت والقوم في المسجد أو أحدهما ولعل وجهه أنه لما لم يكن دليل على واحد من الاحتمالات بعينه قالوا بالكراهة بوجود أحدهما أيا كان وظاهر كلام المصنف أن الكراهة تحريمية؛ لأنه عطفه على ما لا يجوز من الصلاة راكبا، وهي إحدى الروايتين مع أن فيه إيهاما؛ لأن في المعطوف عليه لم تصح الصلاة أصلا، وفي المعطوف هي صحيحة، والأخرى أنها تنزيهية ورجحه في فتح القدير ؛بأن الحديث ليس نهيا غير مصروف، ولا قرن الفعل بوعيد بظني بل سلب الأجر، وسلب الأجر لا يستلزم ثبوت استحقاق العقاب لجواز الإباحة، ثم قرر تقريرا، حاصله: أنه لا خلاف بيننا وبين الشافعي على هذه الرواية؛ لأنه يقول بالجواز في المسجد لكن الأفضل خارجه، وهو معنى كراهة التنزيه وبه يحصل الجمع بين الأحاديث، اهـ.
                                 (البحر الرائق:2/201)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب