021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
GBT کمپنی کے Goat2Goat )بکریوں کی افزائش کے(پروجیکٹ میں پیسہ لگانے کا حکم
68966جائز و ناجائزامور کا بیانجانوروں کے مسائل

سوال

ایک کمپنی ہے  Go Big Trade (pvt) ltd.  کے نام  سے  وہ لوگ مشترکہ فارمنگ کے نام پر لوگوں سے انویسٹمنٹ لیتے ہیں جس سے بکریوں  کی افزائش کرائی جاتی ہے۔پورا طریقہ کار اور شرائط درج ذیل ہیں:کمپنی   ایک بکری اور اس کے ساتھ دو چھوٹے بچے  آپ کو 35000 میں بیچتی ہے جس میں  18 ماہ کا اس کا پورا پرورش کا خرچ بھی ساتھ شامل ہوتا ہے ،کمپنی ایک بچہ اپنے نفع کے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں آپ کے کل دو جانور شمار ہوتے ہیں یعنی ایک جوان بکری اور چھوٹی میمنی،جس کی وہ 18 ماہ تک پرورش کرتے ہیں جس میں  چھوٹے بچے جوان ہونے کے بعد آگے ان کی نسل بڑھائی  جاتی ہے   ،پھر اس جوان بکری اور وہ چھوٹی میمنی  )جب جوان ہوجاتی ہے( تو اس سے بھی بچے پیدا کروائے جاتے ہیں ،اصول یہ ہے کہ جتنے بھی بچے پیدا ہوں ان میں سے ایک کمپنی اپنے نفع کے طور پر لے گی اور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں گے تو وہ سب آپ کے ہوں گے جن کی قیمت آپ کو معاہدہ پورا ہونے پر دی جائے گی۔ کمپنی ڈیڑھ سال کے بعد کم ازکم آپ کو دو سیٹ(یعنی دو جوان بکریاں ) کے پیسے تو دیتی ہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ  جتنے بچے مزید ہوتے ہیں (یعنی ایک سے زائد تعداد میں جو بچے ہوں گے وہ آپ کے شمار ہوں گے اگر صرف ایک ہوگا تو وہ کمپنی کا ہوگا)ان کا 7000 فی بچے کے مزید ملتے ہیں۔پھر کمپنی آپ کو دو طرح کے اکاؤنٹ  آفر دیتی ہے:

                             (1)ریگولر  اکاؤنٹ:اس میں کمپنی  انویسٹمنٹ  پر 71 فیصد نفع  دیتی ہے اس میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نفع ہر مہینے میں لے سکتے ہیں ۔ مثلا آپ نے  15 سیٹ خریدے جو 525000 بنتے ہیں اس پر 71 فیصد نفع  372،750 بنتے ہیں جو کہ 18 مہینوں پر تقسیم کریں تو 20708 بنتے ہیں  جو کہ آپ ہر مہینے لے سکتے ہیں اور مدت پوری ہونے کے بعد اصل رقم بھی آپ کو دے دی جائے گی۔

                             (2)کوآپریٹو اکاؤنٹ :اس میں آپ کو 100 فیصد منافع دیا جاتا ہے یعنی اگر آپ نے 15 سیٹ 525000 میں خریدے تھے تو ڈیڑھ سال بعد آپ کو وہ 1050000 دیتے ہیں ،لیکن اس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ نفع  ڈیڑھ سال کی مدت پوری ہونے پر ہی ملے گا ،ہر مہینے نہیں لے سکتے ۔

                             کمپنی معاہدہ تو اس رقم پر کرتی ہے البتہ جتنے بچے پیدا ہوں گے ان میں سے پہلا بچہ تو کمپنی کا نفع ہوگا ایک سے زائد  بچہ پر7000 بونس معاملہ کرنے والے شخص کو ملے گا  ۔

                             اس ساری تفصیل بیان کرنے کے بعد   سوال یہ  ہے کہ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟ نیز اگر جائز  نہیں ہے تو یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے ؟ تاکہ ہم کمپنی والوں سے بات کرکے  جائز صورت ان کے سامنے رکھیں ،جس پر امید ہے وہ مان لیں گے۔بظاہر یہ کاروبار اچھا ہے جس میں متوسط طبقہ بھی انویسٹ کرکے منافع کما سکتا ہے۔

                             کمپنی کے معاہدہ  اور تمام ڈاکومینٹس کی کاپیاں ساتھ لگائی گئی ہیں۔

                             وضاحت:کمپنی سے استفسار کرنے پر درج بالا تمام مراحل سے متعلق درج ذیل باتیں سامنے آئیں:

                             (1)کمپنی آپ کے جتنے بھی سیٹ خریدتی ہے ان کو علیحدہ آپ کے ایک خا ص کوڈ کے ساتھ  ٹیگ لگایا جاتا ہے ،جو کہ آپ کی ملکیت  ہوتے ہیں(لیکن جو کمپنی کی طرف سے ویڈیوز وغیرہ بھجوائی گئیں اس میں ٹیگ موجود نہیں تھے)۔

                             (2)کمپنی  کو کسی بھی جانور کے مرجانے کی صورت میں گورنمنٹ کے لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے  اس جانور کی 65 فیصد رقم بطور سبسڈی مل جاتی ہے لہٰذا نقصان کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے کمپنی آپ کے ساتھ ایک طے شدہ نفع کا معاہدہ کرتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس کاروبار میں کئی عقد ہوتے ہیں جنکے احکام درج ذیل ہیں:

(1) کمپنی جبمعاملہ کرنے والے شخص کو جانوروں کا پیکج بیچتی ہےاس وقت کمپنی کے پاس جانور موجود ہی نہیں ہوتےبلکہکمپنی کی شرائط میں لکھا ہوا ہے کہجانور ڈھونڈنے میں کبھیدو ماہ لگتے ہیں اور کبھی اس سے بھی زیادہ ،تو گویا یہ معدوم کی بیع ہے جو کہ جائز نہیں۔نیزجانور بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا عقد "جانوروں کو بٹائی پر دینا"بھی کیا جارہا ہوتا ہے ۔جب کہ ایک ہی عقد میںدو عقد جمع کرنایعنی بیع اور جانوروں کو بٹائی پر دینا جائز نہیں۔لہٰذا اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ پہلے کمپنی کے پاس جانور موجود ہوں اس کے بعد وہ اس کو آگے فروخت کے لیے پیش کرے، جب بیع ہوجائےتو جانوروں کو بٹائی پر دینے کا عقد بھیعلیحدہ سے کیا جائے۔

(2) موجودہ صورت میں کمپنیجو جانور بٹائی پر لیتی ہے یہ معاملہ بھی فاسد ہے ،چونکہ کمپنی اجرت کا خرچ بھی لے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھہر پیدا ہونے والے بچوں میں سے پہلا بچہ بھی نفع کے طور پر رکھ رہی ہے جو کہ جائز نہیں۔

اس کی جائز صورت یہ ہے کہ کمپنی اس جانور کی ایک متعین قیمت لگا کر متعلقہ شخص کو جانور کا نصف حصہ

فروخت کر دے۔ اس طرح کرنے سےیہ کمپنی اور معاملہ کرنے والا شخصاس جانور کے آدھے آدھےحصے کےمالک بن جائیں گے۔اس کے بعدکمپنی اس جانور کیپرورش کر ے،چارے وغیرہ اور دیکھ بھال پر جو خرچہ آئے ، وہ ملکیتی حصوں کے مطابق آدھا آدھا برداشت کرتے رہیں ۔اس صورت میں جب بھی کمپنی اور پیکج ہولڈر اس شرکت کو ختم کریں گے توجانور اور ان کے بچے کمپنی اور پیکج ہولڈر کے درمیان نصفنصف تقسیم ہوں گےاور دونوں فریق جب چاہیں شرکت ختم کرکے الگ ہوسکتے ہیں اور اپنا نصف حصہ ایک دوسرے کو یا کسی فریق ثالث کو بھیبیچ سکتے ہیں۔

(3)کمپنی ایک مخصوص رقم نفع کی مد میں دینا طے کرتی ہے جو کہ جائز نہیں ۔اس کی جائز صورتوہ ہے جو اوپر بیان کردی گئی ۔

(4)ریگولر اکاؤنٹ میں نفع پہلے ہی مہینے سے مل سکتا ہے یہ بھی جائز نہیں ۔ اس کیبھی جائز صورت وہی ہے جو شق نمبر (2) میں بیان کردی گئی۔

(5) معاہدہ پورا ہونے پرجانور بھی گویا کمپنی خود خریدے گیمالک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ باہر کسی فریق ثالث کوجانور بیچ سکے،یہ شرطلگانا بھی جائز نہیں۔ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ معاہدہ کے اختتام پر مالک جہاں چاہے اپنے جانور فروخت کر سکتا ہے۔البتہ کمپنی سے بیچنے کا وعدہ کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
و قال اللہ تبارک وتعالی:ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين .فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون.  (سورۃ البقرۃ:278،279)
وقال أیضا:ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون. (سورۃ البقرۃ:188)
و فی الفتاوی الھندیۃ: وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا ،تفسد الشركة، وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة.        (الفتاوی الھندیۃ:2/302)
و قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ:وتفسد، إن شرط لأحدھما دراھم مسماۃ من الربح؛ لأنہ شرط یوجب انقطاع الشرکۃفی بعض الوجوہ ،فلعلہ لا یخرج إلا القدر المسمی لأحدھما من الربح.(تبیین الحقائق:4/248)
وفی الدر المنتقی مع  مجمع الأنھر:و کون الربح بینھما مشاعا، فتفسد إن شرط لأحدھما عشرۃ دراھم مثلا.(الدرالمنتقی :3/446)
قال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی رحمہ اللہ:قال: (ولا بد من معرفة المبيع معرفة نافية للجهالة):قطعا للمنازعة، فإن كان حاضرا فيكتفي بالمباشرة؛لأنها موجبة للتعريف قاطعة للمنازعة. وإن كان غائبا، فإن كان مما يعرف بالأنموذج كالكيلي ،والوزني، والعددي المتقارب فرؤية الأنموذج كرؤية الجميع، إلا أن يختلف فيكون له خيار العيب، فإن كان ما لا يعرف بالأنموذج كالثياب، والحيوان فيذكر له جميع الأوصاف قطعا للمنازعة ويكون له خيار الرؤية.
                                          (الاختیار لتعلیل المختار:2/5)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه، فأنواع :منها : أن يكون
موجودا، فلا ينعقد بيع المعدوم.(بدائع الصنائع:5/138)
قال العلامۃ المرغینانیرحمہ اللہ:(الإجارة: عقد على المنافع بعوض) لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره" وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة، والدار أقيمت مقام المنفعة في حق إضافة العقد إليها ليرتبط الإيجاب بالقبول، ثم عمله يظهر في حق المنفعة ملكا واستحقاقا حال وجود المنفعة. (ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلوم) لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه وبدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع.                        
  1.                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               
و فی الفتاوی الھندیۃ:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر.(الفتاوی الھندیۃ:4/446)
وقال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی:الشركة نوعان: شركة ملك، وشركة عقد، فشركة الملك نوعان: جبرية، واختيارية والاختيارية؛ أن يشتريا عينا، أو يتهبا، أو يوصى لهما فيقبلان، أو يستوليا على مال، أو يخلطا مالهما، وفي جميع ذلك كل واحد منهما أجنبي في نصيب الآخر، لا يتصرف فيه إلا بإذنه ؛لعدم إذنه له فيه، ويجوز بيع نصيبه من شريكه في جميع الوجوه.
                                              (الاختیار لتعلیل المختار:3/12)

٫٫٫٫

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب