70090 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
میرا بھائی شادی شدہ ہے۔ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔چوبیس گھنٹے نشہ میں رہتاہے۔اس نے ایک دوسری عورت سےشادی کرلی تھی۔پتہ کرنےپر معلوم ہوا کہ وہ عورت تین بچوں کی ماں ہے اور کردار کی بھی ٹھیک نہیں ہے،اس وجہ سےگھر میں اور اسی طرح میان بیوی میں جھگڑا ہوا۔اس سے بھائی کواحساس ہوا تو اس نےدوسری عورت کو طلاق دےدی اور باقاعدہ عدالت سےنوٹس بھی بھجوادیا۔اِس بعد اُس عورت نےگھر پر دو تین لڑکوں کےساتھ دھاوا بول دیا اور میرےبھائی کو دھمکایا کہ میرےپاس آپ کی تصاویر اورشاید ویڈیوز بھی ہیں۔اگر تم نےاپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی تو میں یہ اگے دکھاوں گی کہ تم نےمیری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے اور تم پر کیس کردوں گی۔ میرا بھائی اس سارے معاملےسے بہت پریشان ہوا۔ وہ نشہ میں تھا،لیکن اس نے اپنےکو سنبھالا اور اس عورت سے جان چھڑانےکےلیے پہلی بیوی کو کچھ یوں الفاظ کہےکہ" طاق طاق طاق" جو کہ سننے میں طلاق لگے، تو اس پر اُس عورت نےکہا کہ ٹھیک سےطلاق دو جیسا مجھےدی تھی تو فرقان نےاسے مار بھگایا۔
میرےبھائی نےگھر والوں کو اور اپنی بیوی کو اِس بات کا یقین دلایا کہ میں نےطلاق نہیں دی اور نہ ہی میرےدل ودماغ میں تین طلاق دینےکا ارادہ تھا، میں نےصرف جان چھڑانےکےلیےیہ حیلہ اختیار کیاتھا۔ میرےبھائی کی اہلیہ بھی اس بات کا زبانی اقرار کرچکی ہےکہ فرقان نےاسےطلاق نہیں دی ،بلکہ اس نےطاق کا لفظ استعمال کیا ہے اور فرقان پہلےہی مجھےسمجھاچکےتھے۔ اس پورےواقعہ کےتقریبا ڈیڑہ سال تک میرا بھائی اور اس کی اہلیہ رشتہ ازدواج میں منسلک رہیں۔ اب ڈیڑھ سال بعد میرےبھائی کی اہلیہ کےگھر والےآئے اور یہ کہ کر فریہ (بھائی کی اہلیہ)کو لےگئےکہ ہمارا دل گھبرا رہا ہے،ہم اس کو بھیج دیں گے۔کچھ دنوں بعد فریہ کےگھروالوں نے یہ کہہ کر طلاق /خلہ کامطالبہ کردیا کہ ہماری بیٹی کو تو طلاق ہوچکی ہے۔ کیا ان الفاظ سےطلاق واقع ہوچکی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
الفاظ مصحفہ (ایک لفظ کو دوسرےلفظ کےساتھ بدل لیاجائے)سےطلاق واقع ہوجاتی ہے،البتہ لفظ طاق فقہاءکرامؒ کےتصریح کےمطابق طلاق کےمصحف الفاظ میں سےبھی نہیں ہے،اس لیےصورت مسؤلہ میں اگرشوہر(فرقان) کی اس بات پر کہ میں نےلفظ طاق کہاہے طلاق نہیں کہاہے کوئی دو آدمی گواہی دےدیں یا فرقان خود قسم اٹھالے کہ میں نےلفظ طاق کہا ہےطلاق نہیں کہا ہے تو ان الفاظ سےطلاق واقع نہیں ہوئی۔
حوالہ جات
الفتاوى الھندیۃ(8/139)
ولو حذف القاف من طالق فقال أنت طال فإن كسر اللام وقع بلا نية وإلا فإن كان في مذاكرة الطلاق أو الغضب فكذلك وإلا توقف على النية وإن حذف اللام فقط فقال أنت طاق لا يقع وإن نوى وإن حذف اللام والقاف بأن قال أنت طا وسكت أو أخذ إنسان فمه لا يقع وإن نوى كذا في البحر الرائق
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 255)
(قوله أو أنت طال بالكسر) أي فإنه يقع بلا نية، بخلاف أنت طاق بحذف اللام فلا يقع وإن نوى لأن حذف آخر الكلام معتاد عرفا تتارخانية
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 274)
لو قال: أنت طال لم يقع إلا بالنية إلا في حال مذاكرة الطلاق أو الغضب ولو قال يا طال بكسر اللام وقع الطلاق، وإن لم ينو اهـ.وهذا هو الظاهر، وإن حذف اللام فقط فقال أنت طاق لا يقع، وإن نوى ولو حذف اللام،
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 271)
ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة: تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك فيقع قضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال امرأتي تطلب مني الطلاق وأنا لا أطلق فأقول: هذا ولا فرق بين العالم، والجاهل وعليه الفتوى
ضیاءاللہ
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
27محرم الحرام1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ضیاء اللہ بن عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |